ذرا سے شریف

625

پاک سرزمین پارٹی کے متحدہ میں مہاجرت کرتے سمے مصطفی کمال نے کیا ہی مچلتا ہوا جملہ کہا ہے ’’ہم ذرا سا شریف کیا ہوئے پورا شہر ہی بدمعاش ہوگیا‘‘ انڈین اداکارہ کنگنا نے ایک فلم میں اس کو اس طرح کہا ہے ’’ہم بے وفا کیا ہوئے آپ تو بدچلن ہوگئے‘‘۔ دونوں میں کس کی ڈائیلاگ ڈلیوری میں بے حیائی کا عنصر زیادہ ہے، جنوری کے ان یخ بستہ شب وروز میں ہم کنگنا پر ہی نہ اٹک جائیں اس لیے ہمارے لیے اس کا تقابل ممکن نہیں۔ بیان سے کوئی زیادہ حسن ظن میں مبتلا نہ ہوجائے اس لیے مصطفی کمال نے ’’ذراسا شریف‘‘ ہونے کا ذکر کیا ہے۔ ذراسا شریف ہونے میں بچت یہ ہے کہ بلدیہ جیسی فیکٹری میں غریب لیبر کو زندہ جلانے جیسے واقعے کی تکرار کرنا ہو، بوریوں میں پھر سے لاشیں بند کرنا ہو، مخالفین کو پھر سے ڈرل کرنا ہو، سیکٹروں اور یونٹوں میں ٹارچر کرنا ہو، ٹریفک سگنلوں پر بھتا لینا ہو، چھوٹی عید پر فطرانہ کی پرچیاں گھر گھر بانٹ کر وصولیاں کرنا ہو، عیدالاضحیٰ پر کھالیں لوٹنا ہو یا پھر بے حد وحساب چائنا کٹنگ کرنا ہو، یہ عہد الطافیہ پھر سے واپس آئے تو ذراسی شرافت رکاوٹ نہ بنے۔ بد معاشی کی جتنی روح متحدہ کے لوگوں میں بھری ہوئی ہے اس میں ذرا سا شریف ہی ہوا جاسکتا ہے۔ مکمل شریف ہونے سے کام رک سکتے ہیں۔ ایک مشہور اسٹیج ڈانسر حج پر گئی اور رو رو کر اسٹیج پر کیے گئے اپنے صغیرہ کبیرہ گناہوں کی معافی مانگنے لگی۔ اس کی ماں یہ دیکھتے ہی بولی۔ جھلیے، اینا وی نہ رو۔ بندیاں کولوں اگلے کئی مہینے دے پیسے پھڑے ہوئے نے۔ (پگلی! اتنا بھی نہ رو۔ لوگوں سے اگلے کئی مہینے کے پیسے پکڑے ہوئے ہیں)۔
جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم نے کیا ہی سرگرمی اور گرمی سے مصطفی کمال کو اس دھمکی پر للکارا ہے کہ ’’آجائو اور بدمعاشی کرکے دکھائو ہم موجود ہیں اور دیکھتے ہیں تم کتنی بد معاشی کرتے ہو۔ اگر تم نے کراچی میں بد معاشی کرنے کی کوشش کی تو پھر شریف لوگ بتادیں گے کہ بد معاشو ںکو کیسے روکا جاتا ہے‘‘، مسئلہ یہ ہے کہ حافظ صاحب کے سامنے ایک ایسا گروہ ہے جو بظاہر تو سیاسی بن گیا ہے لیکن اندر سے ہے نرا بدمعاش ہے۔ جنہوں نے اپنی بد معاشی کوسیاسی ٹچ دیا ہوا ہے۔ بدمعاش اپنے چال چلن کے قابو میں آنے کا اعلان ذرا سی شرافت کے مظاہرے سے ہی کرتے ہیں۔ یہ ذرا سی شرافت بھی مجبوری ہے کیونکہ الطاف حسین کی صحبت کی کتا گردی میں دہائیاں گزارنے کے بعد کسی کو بھی کاٹنا ممکن نہ ہو تو ذرا سا شریف بنے بغیر چارہ نہیں رہتا۔ وہ کل بھی کسی کے کاندھے پر سوار ہوکر میدان سیاست میں آئے تھے۔ آج بھی کسی کے اشارے پر ہی متحد ہورہے ہیں۔ تجربات کا سلسلہ رکا نہیں ہے۔ ویسے بھی ایم کیو ایم اور ایجنسیاں لازم وملزوم ہیں۔ پہلے فاروق ستار، خالد مقبول صدیقی اور مصطفی کمال ’’جی بھائی جی، جی بھائی جی‘‘ کی گردان کیا کرتے تھے آج کل سوئے راولپنڈی ’’جی سرجی، جی سرجی‘‘ کہتے ہیں۔
متحدہ کے دھڑوں نے جمع ہوکر جو پریس کانفرنس کی اس میں الطاف حسین سے نہ صرف دوری کا اعلان کیا گیا بلکہ ان پر وہ الزامات بھی لگادیے جو اب تک ان کے مخالفین لگاتے آئے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ کی سوچ یہ ہے کہ کراچی کی سیاست میں ایم کیو ایم لندن کا کردار کلی طور پر ختم ہونا چاہیے۔ آج بھی الطاف حسین دنیا بھر میں فوج کے خلاف منفی پروپیگنڈے میں مصروف ہیں۔ الطاف حسین کے را سے تعلقات بھی ہیں جس کے ثبوت فوج کے پاس موجود ہیں۔ الطاف حسین اب دانت کے درد کی طرح ہیں۔ دردناک چیخوں کے ساتھ پریشان، جنہیں دیکھ کر ہنسنے کو دل کرتا ہے۔ دانت کے درد کے علاج میں اگر بے احتیاطی کی جائے تو لمبا کھنچ جاتا ہے۔ دیوار سے سر ٹکرانے اور مکے برسانے کو دل چاہتا ہے۔ الطاف حسین بھی ایسا ہی کرتے نظر آتے ہیں۔ ان کے پاس اب اکثریت ہے نہ عسکریت۔ ایم کیو ایم کے دھڑے الطاف حسین سے تو دور ہوگئے لیکن اس بدمعاشی کی عادت سے نجات حاصل نہ کرسکے جوان کے اندر رچ بس گئی ہے۔ جس کے بغیر ساری دنیا انہیں بے رنگ نظر آتی ہے۔ مصطفی کمال ایم کیو ایم کے نام کو قتل، دہشت گردی، بھتا خوری اور چائنا کٹنگ سے منسلک کرتے آئے ہیں۔ ان کی رائے میں ایم کیو ایم کو ختم کرنا ضروری تھا۔ وہ تو ایم کیو ایم کو ختم نہ کرسکے البتہ پی ایس پی ختم ہوگئی۔ شریف آدمی جب ٹوٹتا ہے تو ذرا سا اینگری، ذرا سا بدمعاش بن جاتا ہے۔ فل بدمعاش جب اندرسے ٹوٹتا ہے تو ذرا سا شریف بن جاتا ہے۔
الطاف حسین کے بغیر متحدہ کے رہنما سگریٹ کے ٹوٹوں کی طرح ہیں۔ جن سے تشنگی دور ہوسکتی ہے اور نہ ہی سیراب ہوا جاسکتا ہے محض ٹھرک پوری کی جاسکتی ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ حافظ نعیم کے مقابل کامیابی حاصل کرنے کے لیے محض ٹھرک دور کرنے جتنے تمباکو سے کام نہیں چل سکتا اس کے لیے کارکردگی کا اثاثہ چاہیے۔ لہٰذا متحدہ نے متحد ہوتے ہی ’’اگر بلدیاتی الیکشن نہیں ہونے دیں گے‘‘ کا نعرہ لگایا ہے تو اس میں حیرت کیسی۔ ذرا سی شرافت کے ساتھ نعروں کا فتور ہی ممکن ہے۔ تباہ شدہ بدمعاشی کے ساتھ الطاف بھائی کے دور جیسا فساد تو ممکن نہیں اس لیے متحدہ نے بلدیاتی الیکشن کے محض بائیکاٹ کا اعلان کیا ہے اور لوگوں سے ’’درخواست‘‘ کی ہے کہ وہ گھروں میں بیٹھیں۔ جلائو گھیرائو اور فائرنگ کا اہتمام کرکے، لرزاں وترساں کرکے، گھروں تک محدودکرنا کیونکہ اب ہمارے بس میں نہیں رہا ہے اس لیے درخواست کو ہی کافی وشافی سمجھا جائے۔
پندرہ جنوری کے بلدیاتی الیکشن حافظ نعیم کے جنون کا نتیجہ ہیں جس کے سامنے سب ہتھیار ڈالتے چلے گئے۔ الیکشن کمیشن کی استقامت کو بھی سلام جس نے سندھ حکومت کی جانب سے الیکشن ملتوی کرانے کی درخواست چھے مرتبہ مسترد کی۔ اور چیف سیکرٹری اور آئی جی سندھ سمیت دیگر متعلقہ اداروں کو حکم دیاکہ پندرہ جنوری کو صاف شفاف اور پرامن الیکشن کے انعقاد کو یقینی بنائیں۔ بلدیاتی الیکشن کسی کی بھی ترجیح نہیں ہیں۔ پی ٹی آئی ہو یا پی ڈی ایم یا پی پی پی یا متحدہ۔ ہمارا حکمران طبقہ آسائش پسند مگر پریکٹیکل لوگوں پر مشتمل ہے۔ عوام تک اقتدار کی منتقلی جیسی کھکیڑ میں پڑکر وہ اپنی قدرو قیمت اور اثاثوں سے محروم ہونا نہیں چاہتا اور نہ مزید لوگوں کو ان کرپٹ اثاثوں میں شامل کرنا چاہتا ہے۔ جماعت اسلامی جیسے شراکت داروں کی اس سسٹم میں گنجائش نہیں جو افراد کا ایسا اجتماع ہے جونہ خود کرپشن کرتا ہے نہ کرنے دیتا ہے۔ یہ ایسے لوگ ہیں جو اپنے لوگوں کے بھی کام نہیں آتے، ان پر بھی نگراں رہتے ہیں۔ یہ لوگ ملک کے گرد ایسی فصیلیں تعمیر کرنا چاہتے ہیں جس سے کرپٹ لوگوں کو نیچے پھنکوا سکیں۔ نااہلوں کے لیے ترحم خسروانہ اور ہم جماعتوں کے لیے شفقت برادرانہ کا ان کے ہاں چلن نہیں۔ اگر پورا حکمران طبقہ ان کی راہ میں رکاوٹ ہے تو اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں ہے۔
کہتے ہیں کہ ایک چرواہا بکری کو بے رحمی سے پیٹ رہا تھا۔ قریب کھڑے ہوئے ایک شخص نے اس سے کہا ’’بے زبان جانور پر ظلم نہ کرو اس کی آہیں عرش تک جاتی ہیں‘‘ چرواہے نے کہا ’’اچھا ہے عرش والے کو پتا چلے کہ نیچے کوئی جوان بھی رہتا ہے‘‘۔ بلدیاتی الیکشن کا نتیجہ کچھ بھی آئے، جماعت اسلامی جیتے یا ہارے حکمران طبقے کو یہ پتا چل گیا کہ جماعت اسلامی میں حافظ نعیم جیسا جوان رعنا بھی موجود ہے جو کراچی کے عوام کے حقوق کا محافظ ہے۔ ان کے لیے سب سے لڑسکتا ہے۔ اعدادو شمار سے بڑھ کر اصل چیز اعتباریت ہے جو اہل کراچی کے باب میں حافظ نعیم حاصل کرچکے ہیں۔ وہ اہل کراچی کی اعتباریت کے میئر تھے، ہیں اور آئندہ بھی رہیں گے۔