مہنگائی کا جن اور معاشی بحران

631

آج پھر سارا دن یونہی گزر گیا۔ دکان میں ’’کاریگر‘‘ تو موجود تھے اور سلائی مشینیں بھی تھیں سلائی کا کام بھی آیا ہوا تھا البتہ بجلی غائب تھی۔ دوسری طرف کاریگر تنخواہ کا تقاضا کررہے تھے۔ مہینہ ختم ہونے کو تھا لیکن لوگوں کے کپڑے سلائی نہیں ہوئے تو معاوضہ کیسے وصول ہوتا؟؟ آئے دن بجلی کی لوڈ شیڈنگ نے کاروبار کو متاثر کیا ہوا ہے۔ گھر آیا تو بیگم نے کہا صبح سات بجے تک ’’گیس‘‘ نہیں آرہی ہوتی اگر ہوسکے تو آج ڈبل روٹی لے آئیں۔ اس نے اپنی جیب کو ’’ٹٹولا‘‘ دوسو روپے تھے سو جب ڈبل روٹی لینے پہنچا تو اسے ایک دھچکا لگا کیونکہ اس کی قیمت ’’ایک سو دس‘‘ روپے تھی۔ جب کہ سال کے شروع میں ڈبل روٹی 65 روپے کی تھی پھر 75 روپے کی ہوئی اور اب تو بس مہنگائی کا طوفان قابو سے باہر ہوتا جارہا ہے۔ پوری دنیا میں لیڈروں کا تعلق کسی بھی طبقے سے ہویہ لوگ اپنے ملک اور عوام سے مخلص اور آئین و قانون کے پابند ہوتے ہیں یہ سادگی اور غریب پروری کو اپنا شعار بنا تے ہیں یہ عام آدمی کی صرف باتیں نہیں کرتے یہ عام آدمی نظر بھی آتے ہیں مگر ہمارے ملک میں ایسا نہیں ہے۔ ہم ’’ڈرٹی پالیٹکس‘‘ کے ایک خوف ناک جوہڑ میں غوطے کھا رہے ہیں۔ ملک کی تینوں بڑی سیاسی جماعتیں غریبوں کی باتیں ضرور کرتی ہیں لیکن ان کے لیڈروں کا طرز زندگی اور ان کے طور طریقے ان کی باتوں سے مطابقت نہیں رکھتے۔ ہزاروں ایکڑ کے بنگلوں اور فارم ہاؤسز میں رہنے والے، کروڑوں روپے ماہانہ مراعات تنخواہیں اور پروٹوکول لینے والے، بیرون ملک بڑے گھر اور بینک بیلنس رکھنے والے بلٹ پروف گاڑیوں جہاز و ہیلی کاپٹر کو موٹر سائیکل کی طرح استعمال کرنے والے ہمارے تمام وزراء اعظم ایک غریب اور مقروض ملک کے لیڈر نہیں لگتے۔
جرمنی کی چانسلر اینجلا مرکل نے دو تین سوٹوں اور ایک ہی کوٹ کے ساتھ پانچ سالہ دور اقتدار پورا کیا اور دنیا بھر میں کروڑوں لوگوں کو اپنے کردار سے اپنا گرویدہ بنایا۔ ’’امریکی سابق صدر باراک اوباما صدارت سے فارغ ہونے کے بعد کرایہ کا مکان ڈھونڈتا نظر آتا ہے‘‘۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق امریکا کے تین سابق صدور اس وقت اپنی زندگی کی گاڑی کو چلانے کے لیے مختلف یونیورسٹیوں میں لیکچرز دے کر گزارا کر رہے ہیں۔ ہماری قسمت میں لیڈر نہیں دھندے والے لوگ ہیں۔ حالیہ دنوں میں اخبارات میں یہ خبریں شائع ہوئیں ہیں کہ مریم نواز نے کئی لاکھ روپے کی سینڈل خریدی پھر کیا تھا بلاول زرداری نے بھی آٹھ لاکھ روپے کا جوتا خریدا اور ساری دنیا کی سیر پر نکل گئے اب تک ان کے دوروں پر ایک ارب 98 کروڑ روپے کے اخراجات آ چکے ہیں یہ ہیں غریب مقروض اور دیوالیہ پن کے دہانے پر کھڑے ملک کے وزیر خارجہ اور ان کے کرتوت۔
ہمارے ملک میں مہنگائی کی کئی وجوہات ہیں۔ ہماری حکومت ملک چلانے کے لیے ’’آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک‘‘ سے سود پر قرضہ لیتی ہیں۔ پھر اس قرضے پر سود در سود لگتا ہے۔ جس کی ادائیگی کے لیے مزید سخت شرائط پر مزید قرضہ لیا جاتا ہے اور اس طرح قوم کو ایک طرف اللہ اور اس کے رسولؐ کے ساتھ جنگ میں دھکیل دیا گیا ہے۔ دوسری جانب غریب عوام پر اس سود در سود کی ادائیگی کے لیے ’’جبری ٹیکسوں‘‘ کا بوجھ ڈالا جاتا ہے۔ یہ ایسی دلدل ہے جس میں پاکستان آزاد ہونے کے باوجود بھی بری طرح دھنستا جارہا ہے۔ پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے لیکن بدقسمتی سے یہاں اسلامی قانون کی جگہ آج تک انگریزوں کا قانون جاری و ساری ہے جو انگریزوں نے غلام قوم کے لیے بنایا تھا۔ انگریزوں نے اس غلام قوم کے لیے ٹیکسوں کا نظام رائج کیا اور ضروریات زندگی کی بنیادی اشیاء پر ٹیکس عائد کیے۔ لہٰذا عوام آٹا، تیل، اور چینی، صابن اور ماچس سب پر ٹیکس دیتے ہیں۔ جبکہ اسلام کے معاشی نظام میں زکوۃ اور عشر وصول کیا جاتا ہے عشر پیدا ہونے والی فصل پر وصول کیا جاتا ہے جبکہ زکواۃ ایک سال تک جمع رہنے والی رقم یا زیورات پر ڈھائی فی صد کے حساب سے عاید ہوتا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ اسلامی معیشت میں ٹیکس اس پر لگتا ہے جس کے پاس اضافی دولت ہو یا زیور ہو اور اسے ایک سال گزر گیا ہو عام غریب آدمی زکواۃ سے مستثنیٰ ہوتا ہے اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ اسلامی نظام معیشت کے تحت مال داروں سے پیسہ وصول کر کے غریبوں پر خرچ کیا جاتا ہے۔ بدقسمتی سے گورے انگریز برعظیم پاک و ہند سے جاتے جاتے اپنی جگہ اپنے فرمابردار کالے انگریز پر مسلط کرگئے۔ ان غداروں کو انگریزوں سے وفاداری اور اپنی قوم سے غداری کے عوض بڑی بڑی جاگیریں اور زرعی زمینیں دی گئیں۔ اور انہی کالے انگریزوں کی اولادیں آج ہم پر مسلط ہیں۔ جو انگریز کے ظالمانہ نظام کے محافظ بنے ہوئے ہیں اور اس کے ذریعے عوام کو غلام بنا کران کا خون نچوڑ رہے ہیں۔
دوسری جانب ان ظالموں کے عوام دشمن اقدامات مہنگائی کا سبب بنتے ہیں۔ جیسے بجلی کے نرخوں میں بے تحاشا اضافہ اور اس پر لگنے والے ظالمانہ ٹیکس مہنگائی کو فروغ دیتے ہیں۔ ہمارے ملک کی معیشت قرضوں پر قائم ہے۔ اور آئی ایم ایف کے قرضے ان کے ناروا اور ’’ظالمانہ‘‘ فیصلوں کو قبول کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پٹرول، ڈیزل، گیس بجلی اور پانی کے نرخ میں بھی آئی ایم ایف کے حکم سے ظالمانہ اضافہ کیا جاتا ہے۔ جب تک ہمارے ملک میں کوئی ’’خوف خدا‘‘ رکھنے والی ’’دیانت دار‘‘ حکومت نہیں آتی اور ہمارے ملک کے حکمران قرضوں پر عیش و عشرت کی زندگیاں گزارنا نہیں چھوڑتے مہنگائی میں اضافہ ہوتا رہے گا۔ اس وقت کے الیکٹرک واپڈا سے چار روپے فی یونٹ بجلی خرید کر کراچی کے عوام کو 50/55 روپے فی یونٹ میں فروخت کر رہی ہے اسے روکنے والا کوئی نہیں۔ ایک سروے کے مطابق اس وقت پاکستان کے عوام ایک لیٹر پٹرول پر 70 روپے سے زائد ٹیکس ادا کر رہے ہیں جو انتہائی ظالمانہ فعل ہے۔ اگر حکومت یہ احساس کرے کہ ہمیں عوام کو سہولت دینی ہے اور عوام کی زندگی کو آسان بنانا ہے تو وہ ان ظالمانہ ٹیکسوں کا بوجھ عوام پر نہ ڈالے اپنی عیاشیاں اور شاہ خرچیاں بند کرے اسی سے عوام کو ریلیف اور آسانی مل سکتی ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے حکمران ظالمانہ اور آمرانہ سوچ رکھتے ہیں عوام کو سہولتیں دینے اور عوام پر مہنگائی کے بوجھ کو کم کرنے کی کوشش نہیں کرتے۔ آپ دیکھیں کہ اس وقت پاکستان کا کسان مہنگے ڈیزل مہنگی بجلی مہنگی کھاد کی وجہ سے پریشانی کا شکار ہے اور گزشتہ ماہ انہوں نے اسلام آباد میں شدید احتجاج کیا تھا عام طور پر عوام کا درد رکھنے والی حکومتیں ایسے اقدامات کرتی ہیں جن سے عوام کو ریلیف ملتا ہے، مہنگائی پر نظر رکھتی ہیں مہنگائی پر جہاں حکومتی اقدامات سے اثر پڑتا ہے وہاں منافع خور تاجر بھی منافع خوری سے باز رہتے ہیں۔ تجارت میں منافع لینا جائز ہے لیکن ناجائز منافع قطعاً حرام ہے ہمارے ملک میں مفاد پرست سرمایہ دار اگر یہ دیکھتے ہیں کہ مہنگائی پر حکومت کی کوئی نگرانی نہیں ہے تو وہ اپنے منافع کو دگنا اور چار گناہ کر دیتے ہیں دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی حکومت نے پرائس کنٹرول اور کوالٹی کنٹرول کے محکمے قائم کیے ہوئے ہیں جن کا کام بازاروں کے نرخوں پر نظر رکھنا اور انہیں کنٹرول کرنا ہوتا ہے تاکہ ناجائز منافع خور من مانے نرخ مقرر کرکے عوام کو مشکلات میں نہ ڈالیں اس کے لیے حکومتی اہلکار مثلاً ڈپٹی کمشنر، اسسٹنٹ کمشنرز کو یہ ڈیوٹی سونپی جاتی ہیں کہ وہ بازاروں میں قیمتوں پر نظر رکھیں یہ اہلکار ہول سیل مارکیٹ پر نظر رکھتے ہیں۔ ان کے نرخوں کو کنٹرول کرنے کے لیے وہ تاجروں سے اور امپورٹر سے رابطہ رکھتے ہیں۔ اور ان کی قیمتیں مقرر کرتے ہیں۔ پھر پولیس اور محکمہ کے ذریعے نگرانی کی جاتی ہے۔ جو تاجر اس پر عمل نہ کرے تو ان پر جرمانے عائد کیے جاتے ہیں۔ اور انہیں ان قوانین کا پابند بنایا جاتا ہے۔ جہاں پر ان اقدامات کو بروئے کار نہیں لایا جاتا وہاں تاجر بے لگام ہو جاتے ہیں۔ اور مہنگائی بے قابو ہو جاتی ہے۔ جیسا کہ اس وقت ہمارے ملک ہے۔
دوسری جانب بدحال معیشت اور حکومتی اقدامات کی وجہ سے، ڈالر کی اڑان آسمان کی طرف ہے، مہنگے ڈالر نے مہنگائی کو اور پر لگا دیے ہیں اور عوام کے لیے جینا مشکل ہوتاجا رہا ہے یہی وجہ ہے کہ غریب اور بے بس عوام خود کشیاں کر رہے ہیں ملک کی بہت بڑی آبادی ایک وقت کا کھانا کھا کر گزارا کرنے پر مجبور ہے۔ ایک فلاحی ریاست کے اندر ضروری ہے کہ ان تمام اقدامات کا جائزہ لیا جائے اور مہنگائی کو کنٹرول کرنے کے لیے شرح سود کو کم کیا جائے۔ پیداواری لاگت کو کم کرنے کے لیے پٹرول، ڈیزل، بجلی اور گیس کی قیمتوں کو کم رکھا جائے۔ اسی طرح آئی ایم ایف کے ناجائز مطالبات کو بھی نہ تسلیم کیا جائے۔ حکمران اپنے اخراجات کو کم کریں اور عیاشی کی زندگی کو ختم کریں اور سادگی اختیار کریں۔ اس سے بچنے والی رقم کو عوام کو ریلیف دینے پر لگایا جائے۔