قطر اور خوشی

611

سنتے ہیں خوشی بھی ہے زمانے میں کوئی چیز
ہم ڈھونڈتے پھرتے ہیں کدھر ہے یہ کہاں ہے
آج لگتا ہے کہ ہر ایک موبائل ہاتھ میں لے کر خوشی کی تلاش میں ہے اور وہ ہے کہ کسی طرح ہاتھ نہیں آتی۔ ہر ایک ہر وقت موبائل کی اسکرین پر نظر جمائے ہے۔ خاص طور سے نوجوان، اس سے وہ خوشی کے بجائے ذہنی دبائو، نیند میں کمی، سر درد اور دوسری ذہنی بیماریوں کا شکار ہیں۔ یہ تو ایک دنیا کا مسلمہ اصول ہے کہ حالات کبھی یکساں نہیں رہتے اور نہ سازگار رہتے ہیں جس طرح موسم بدلتے ہیں اسی طرح حالات بھی بدلتے ہیں، عمر دکھ تکلیف پریشانی تنگی مصیبت کسی کو بھی دوام نہیں ہے نہ ہی خوشی کے حالات سازگار رہتے ہیں بلکہ خوشی کا وقت آپ کی سوچ کے مطابق ہوتا ہے کم یا زیادہ۔ کچھ سمجھ دار لوگ کہتے ہیں کہ ہمارا ذہن ہمارا بہترین دوست یا بدترین دشمن ہوسکتا ہے یہ ذہن ہی ہے جو بیرونی حالات کو خوشی اور غم میں بدل دیتا ہے۔ اسی سوچ کے تحت جرمنی میں اسکولوں میں خوشی کو ایک مضمون کے طور پر پڑھانے کا تجربہ کیا گیا۔ یہ تعلیمی تجربہ اتنا کامیاب رہا کہ اب باقاعدہ مڈل اسکول اپنے ہاں طالب علموں کو یہ مضمون پڑھا رہے ہیں۔ پہلا تجربہ 2013ء اور 2014ء کے تعلیمی سال میں کیا گیا تھا۔ اب تو ایک بڑی تعداد اسکولوں کی ہے جو خوشی کو مضمون کے طور پر اپنے ہاں باقاعدہ پڑھا رہے ہیں۔ خوشی کی نصابی تعلیم دینے کی ابتدا کرنے کا مقصد یہ تھا کہ طلبہ و طالبات کی شخصی نشوو نما ہو وہ شعوری طور پر خوش رہیں ساتھ اپنی زندگی میں اسکولوں اور گھروں میں عملاً اس تجربے کو استعمال میں لائیں۔
جرمنی کے شہر ہائیڈل برگ کے ایک اسکول کے ڈائریکٹر کہتے ہیں انہیں یہ بات ہمیشہ پریشان کن لگتی تھی کہ بچے اسکول جانے سے کیوں اتنا ڈرتے ہیں۔ ایسے جیسے کہ دانتوں کے ڈاکٹر کے پاس جانے سے، اس ڈر کے باعث وہ اپنی نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کرپاتے۔ وہ کہتے ہیں کہ تعلیم و تربیت میں خوشی کا احساس ایک بنیادی شرط ہوتی ہے۔ لہٰذا اسی سوچ کے ساتھ انہوں نے بچوں کے نصاب میں خوشی کا مضمون شامل کیا۔ وہ بتاتے ہیں کہ اس مضمون کی تعلیم کے دوران بچوں کو مکمل آزادی ہوتی ہے اور اُن پر کسی قسم کا دبائو نہیں ڈالا جاتا۔ پڑھانے کا طریقہ کار ابتدا میں یوں رکھا گیا کہ طلبہ کو مختلف تصویروں والے کارڈز دکھائے جاتے ہیں، ان سے ان میں سے کوئی ایک پسند کرنے کے لیے کہا جاتا ہے، پھر کسی دوسرے طالب علم سے کہا جاتا ہے کہ وہ پہلے طالب علم کے بارے میں مثبت انداز میں یہ بیان کرے کہ اُس نے یہ کارڈ کیوں پسند کیا؟ مثلاً اگر کسی طالب علم نے درخت کی تصویر والا کارڈ پسند کیا ہے تو دوسرا طالب علم یہ کہے کہ تم نے یہ کارڈ اس لیے پسند کیا ہے کیوں کہ تمہاری جڑیں بھی بہت گہری ہیں اور یوں تم ہر طوفان کا مقابلہ کرسکتے ہو۔ اس طرح مثبت باتوں سے طلبہ میں ایک نیا اعتماد پیدا ہوتا ہے اور وہ اسکول کے ماحول اور اپنے کلاس کے لڑکوں میں گھل مل جاتے ہیں۔ خوشی کے نصاب میں بے شمار دوسری طرح کی چیزیں بھی شامل کی گئی ہیں۔ طویل سانس سے لے کر پرسکون رہنے کی مشقوں سے لے کر خواہش کے اظہار خواب دیکھنے اور اپنے مقاصد کے تعین کرنے تک بہت کچھ شامل کیا گیا ہے۔ اب مغرب کے مفکر یہ بات بھی ریسرچ سے ثابت کرتے ہیں کہ دوسروں کی مدد کرنا اور ان کو خوش کرنا بھی خوش رہنے کا طریقہ ہے۔ اور دولت کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ خوشی بڑھنے کی گارنٹی نہیں ہے۔ سائنس دانوں نے برسوں کی تحقیق سے معلوم کیا کہ آمدنی دگنی ہوجانے سے ایک سے لے کر دس تک کے پیمانے میں خوشی صرف 0.2 درجے کے قریب ہی جگہ پاتی ہے۔ تحقیق کے مطابق اس کی وجہ یہ ہے کہ لوگ اپنی آمدنی کے خود پر پڑنے والے اثرات کے بجائے دوسروں سے اپنی آمدنی کے تقابل کا احساس زیادہ کرتے ہیں۔ یہ بات تو اسلام ہمیں سیکڑوں سال پہلے بتا چکا ہے کہ خوشی کا اہم راز دوسروں کو اپنی خوشیوں میں شریک کرنا، دوسروں کی خوشیوں میں خود شریک ہونا، خود کو حسد جلن سے دور رکھنا، اپنے آپ کا دوسروں سے موازنہ نہ کرنا، سماجی اور خاندانی تعلقات کو محبت اور اخلاص کی بنیادوں پر تعمیر کرنا۔ جو کچھ زندگی میں حاصل ہے اس کی قدر کرنا ناکامیوں پر مایوس ہونے کے بجائے ان سے تجربہ حاصل کرنا آپ کو پُرسکون اور مطمئن رکھتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ ہر مشکل کے بعد آسانی ہے۔ لہٰذا مصائب اور مشکلات سے گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ ہر مشکل ختم ہونے کے لیے ہی ہوتی ہے۔ بس انسان کو تلقین کی جاتی ہے کہ روح پر توجہ مرکوز رکھو۔ روح کی صحت مندی رب کی طرف توجہ مرکوز رکھنے میں ہے۔ رب کی باتیں (قرآن) سننے اور پڑھنے سے روح کو سکون ملتا ہے۔ اللہ کی یاد سے دلوں کو اطمینان نصیب ہوتا ہے۔ قطر نے دنیا کو یہ سب بہت خوبصورت انداز میں بتایا۔ یہ آج کے دور کی تازہ مثال قطر کا فیفا ورلڈ کپ ہے جہاں لاکھوں غیر مسلموں کو اسلام کے شہری اصولوں سے متعارف کروایا گیا۔ ایک رضاکار نے اس موقع پر بتایا کہ ہم لوگوں کو اخلاقیات خاندانی تعلقات کی اہمیت پڑوسیوں اور غیر مسلموں کے احترام کے بارے میں بتاتے ہیں۔ غیر مسلم سیاحوں نے اس خوشی کے احساس کو محسوس کیا اور بڑی تعداد میں مسلمان ہوئے۔ سچ یہ ہے کہ قطر نے دنیا کو خوشی کے ایک نئے تصور سے روشناس کرایا۔