!!رشوت عیب نہیں رہی

704

سندھ میں عوامی راج میں رشوت سرکاری اہلکاروں کے خون میں رچ بس گئی ہے، کچھ معیار زندگی کی بلندی رشوت کے مال میں سمجھ کر لیتے ہیں تا کہ اسٹیٹس کے حامل ہوسکیں تو کچھ سمجھتے ہیں کہ نوکری بچانی ہے تو مال پہچانا ہے، رشوت اب عیب نہیں رہی بلکہ ھذا من فضل ربی قرار پائی ہے۔ سندھ میں رشوت کے ریٹ اور اغوا کی وارداتیں انتخابات کے قریب آتے ہی بڑھ جاتی ہیں، کیوں کہ انتخابات کے خرچ پورے کرنے ہوتے ہیں، پہلے یہ پوشیدہ طور پر دلالوں کے ہاتھوں لی جاتی تھی اور کہا جاتا تھا کہ دلال بنائے کام۔ اب دلال کا جھنجھٹ بھی برقرار ہے تو خود بھی دھڑلے سے رشوت طلبی اور وصولی بھی ہے اور ایک چین ہے جو کلرک سے لے کر اعلیٰ افسر تک جاتی ہے۔ ایک سابق چیئرمین نے مجھے بتایا کہ ڈومیسائل کلرک نے مجھے فون کیا کہ آپ کا فلاں رشتے دار مجھ سے ڈومیسائل آپ کے حوالے سے بنواتا ہے اور مجھے مٹھائی بھی نہیں دیتا اور مجھے اپنی گرہ سے بالا افسران کو حصہ دینا طے پڑتا ہے تو اس چیئرمین کے بقول میں نے کہا کہ میرے نام پر آنے والے ڈومیسائل بنا کر دے دیا کرو اور مہینے پر حساب کرکے مجھ سے لے لیا کرو۔ دوسرا واقعہ خود راقم کے ساتھ ہوا، مجھے تپیدار سے مکان کے گھر فارم کی نقل درکار تھی، تپیدار نے مجھے بتایا کہ اس کے دو ہزار روپے مجھ سے اسسٹنٹ کمشنر لے گا آپ میری موجودگی میں میری شکایت کرنا مجھے اسسٹنٹ کمشنر حکم دے گا کہ ان کو نقل دے دو تو یوں صحافی ہونے کے ناتے میرے دو ہزار بچ جائیں گے، ہوا بھی یوں ہی، ایک صاحب نے بتایا کہ میرے کاغذات ایک اجازت نامہ کے حصول میں پورے نہ تھے میں نے ایک رقم کاغذات کی فائل میں رکھ کر کلرک کو دی تو اُس نے رقم اُٹھا کر جیب میں رکھی اور فائل لے جا کر صاحب کو بتایا کہ کاغذات مکمل ہیں اور دستخط کراکر اجازت نامہ تھمادیا۔ اب تو ہر سرکاری محکمے، ہر ہائوس کا ماہانہ خرچ بجٹ میں مقرر بتایا جاتا ہے سو افسران پہنچاتے ہیں اور تحفظ نوکری پا کر کلرک تک کہتا ہے اتنی رقم دو اور نہیں تو جس کو مرضی میں آئے کہہ دو۔ پہلے صرف تھانے بکنے کا تذکرہ تھا اب تو ہر محکمہ فروخت ہی نہیں ہورہا ہے بلکہ ہر پوسٹ پر تقرر کی مٹھائی کے نام پر بھاری رشوت کے ساتھ ماہانہ خرچ بھی مکمل ہے اور کہتے ہیں کہ پوسٹ باقاعدہ میعاد اور رقم پر فروخت ہوتی ہے اور آنے والا رشوت کی صورت ادا کی گئی رقم مع سو دو صول کرتا ہے اور یوں اب رشوت خور بے خوف و خطر مصروف رشوت ستان ہے۔ کوئی محکمہ، کوئی ادارہ، بلکہ ہر چیز میں رشوت رچ بس گئی ہے کوئی کام بغیر رشوت کے ہوجائے تو کرامات کہلاتی ہے۔
رشوت جو رواج بن گئی اور سرکاری اہلکار اس کو جمہوریت کا خراج بھی سمجھتے ہیں اس کی وصولی کو کچھ نے یوں جائزہ بھی حیلہ سازی سے بنا رکھا ہے وہ رشوت کی وصولی دراز کھول کر کرتے ہیں کہ اس میں ڈال دو، یوں وہ پھر رقم اٹھا کر ضمیر کو تھپکی دیتے ہیں کہ رشوت لینا حرام ہے ہم نے لی نہیں ہے، کچھ بدبخت افسران کے متعلق تو یہ بھی سنا کہ وہ نماز پڑھتے ہوئے ضرورت مند سے مصلے کے نیچے رقم رکھنے کی روایت کے حامل رہے اور پھر اس کو ھذا من فضل ربی، قرار دے کر مستفیض ہوتے ہیں۔ اب یہ عام بات ہے کہ رشوت کے بغیر گاڑی چلتی نہیں۔ تپیدار جو شعبہ ریونیو کے روح رواں ہوتے ہیں جن کے متعلق یہ کہاوت بھی ہے کہ ڈی سی کی بیوی نے تپیدار کے گھرانے کے ٹھاٹھ باٹھ دیکھ کر اپنے شوہر سے پوچھا کہ آپ تپیدار کب بنو گے؟ جی ہاں تپیدار ریونیو کا کمدار ہوتا ہے پہلے تپیدار کی تنخواہ مختار کار کے پاس آتی تھی وہ تقسیم کرتے تھے۔ وہ صرف وصولی کے دستخط کراکر پوری تنخواہ ہتھیا لیا کرتے تھے۔ تپیداروں نے میڈیا میں واویلا کیا تو تنخواہ بذریعہ چیک آنے لگی۔ مختار کار نے راقم کو بتایا کہ تنخواہ تو اب بھی میں جب دیتا ہوں کہ جب تپیدار اتنی رقم میرے ہاتھ میں تھمادے۔ پوچھا گیا یہ ظلم کیوں؟ تو انہوں نے ایک واقعہ بتا کر معصومیت ثابت کرنے کی کوشش کی کہ ایک مرتبہ سکرنڈ میں وزیراعلیٰ سندھ کی تشریف آوری رات گئے ہوئی، ان کا ریسٹ ہائوس میں بندوبست کیا تو ان کے پروٹوکول گاڑیوں کے نصف درجن سے زائد ڈرائیوروں نے پٹرول کے پیسے طلب کیے۔ میں نے پٹرول بھروانے کی بات رکھی تو وہ ناراض ہوگئے۔ اور کہا کہ ہم پٹرول پمپ پر جائیں گے؟ ہم وزیراعلیٰ کے ہمراہ ہیں۔ مجبوراً میں نے ان سب کو ایک خطیر رقم پٹرول کی مد میں دی۔ اب بتائو میں تنخواہ والی رقم وصول نہ کروں تو خرچ کیسے چلائوں۔ ایک اسسٹنٹ کمشنر نے بتایا کہ جتنی میری تنخواہ ہے اتنے کی تو چائے کافی پی جاتے ہیں بتائو میں گھر کے اخراجات کیسے پورے کروں۔ یوں رشوت اب تو سیاست کے خرچہ پانی کے کام بھی آتی ہے۔ کچھ کہتے ہیں تنخواہ ہم ڈیوٹی کی لیتے ہیں رشوت ہمارا محنتانہ ہے جو کام نمٹانے کی لیتے ہیں۔ عوام تنخواہ تھوڑی دیتے ہیں بہرحال سندھ میں رشوت کے بغیر کام ایسا ہوگیا جیسے سوئی کے ناکے سے اونٹ کے گزارنے کا۔