مشرقی پاکستان بنگلادیش کیسے بنا؟

655

پاکستان کا قیام ایک خواب کی معجزاتی تعبیر تھی لیکن یہ معجزہ محض چوبیس سال بعد ہی ٹوٹ گیا۔ پاکستان کا قیام تاریخی لحاظ سے ایک طرح سے ناممکنات میں سے تھا لیکن قائداعظم کے اخلاص اور انتھک محنت نے ناممکن کو ممکن بنادیا۔ ایک طرف برطانیہ جو دنیا کی اس وقت کی سپر پاور تھی دوسری طرف ہندوئوں کی اکثریت اور تیسری طرف قلیل اور کمزور مسلمان تھے لیکن وہ نظریہ جس پر پاکستان کی بنیاد تھی وہ بہت طاقتور تھا۔ چناں چہ اللہ نے ہمیں پاکستان عطا فرمایا۔ افسوس کہ قائداعظم جلد دنیا سے رخصت ہوگئے اور ایک مضبوط وفادار اور سمجھدار اشرافیہ (اسٹیبلشمنٹ) کے پائوں جنم نہ سکے۔ کچھ عاقبت نااندیش حکمران پاکستان پر قابض ہوگئے جس کے نتیجے میں پاکستان دولخت ہوگیا۔ بنگالی پاکستان کے خالق تھے۔ برصغیر میں مسلم سیاست کی ابتدا بنگالیوں نے کی تھی۔ مسلم لیگ کی تخلیق ڈھاکا میں ہوئی۔ پاکستان کے اہم رہنمائوں میں بنگالی رہنما کثیر تعداد میں تھے۔ تحریک پاکستان میں مشرقی بنگال کے مسلمان پیش پیش تھے۔ ایسا کیا ہوا کہ محض دو ڈھائی عشروں میں وہ پاکستان سے متنفر ہوگئے۔ آئیے اس کی وجوہات کا جائزہ لیتے ہیں۔
بنگالی پاکستان کی کُل آبادی کا 56 فی صد تھے۔ پاکستان کے زرمبادلہ کا 60 فی صد مشرقی پاکستان کی پٹ سن سے آتا تھا مگر 1960ء تک بنگالیوں کو فوج میں لیا ہی نہیں جاتا تھا۔ سول اداروں میں بنگالیوں کی تعداد بہت کم تھی۔ زرمبادلہ کا 60 فی صد فراہم کرنے کے باوجود مشرقی پاکستان کو اس کے حصے کے وسائل مہیا نہیں کیے گئے۔ پاکستان میں ایک زبان یعنی اردو کو سرکاری زبان قرار دے کر پورے ملک میں نافذ کیا گیا تو مشرقی پاکستان کے عوام نے اسے قبول کرنے سے انکار کردیا کیوں کہ ان کا کہنا تھا کہ اگر صرف اردو ہی کو سرکاری زبان کے طور پر نافذ کیا گیا تو مشرقی پاکستان کے پڑھے لکھے افراد ایک دم جاہل اور اَن پڑھ ہوجائیں گے اور وہ اہم سرکاری عہدے حاصل کرنے میں ناکام ٹھیریں گے۔ اگرچہ طویل جدوجہد کے بعد بنگالی زبان کو 1956ء میں پاکستان کی دوسری دفتری زبان قرار دے دیا گیا لیکن اس 9 سال طویل خونیں جدوجہد نے بنگالی عوام کے غم و غصے کو بڑھاوا دیا۔ آخر کار 1970ء کے الیکشن میں شیخ مجیب الرحمن نے مشرقی پاکستان کی قومی اسمبلی کی کُل نشستوں میں سے دو کے سوا سب حاصل کرلیں، یعنی کُل 300 کی قومی اسمبلی میں مجیب الرحمن کی عوامی لیگ نے 160 اور مغربی پاکستان سے ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلز پارٹی نے 81 نشستیں حاصل کیں۔ عوامی لیگ نے اس انتخاب میں کُل ڈالے گئے ووٹوں میں سے 39.2 فی صد، جب کہ پیپلز پارٹی 18.6 فی صد ووٹ حاصل کیے۔ جنرل یحییٰ نے اسمبلی کا پہلا اجلاس 3 مارچ 1971ء کو بلانے کا اعلان کیا جسے بعد میں ملتوی کردیا۔ 25 مارچ کو فوج نے مشرقی پاکستان میں ملٹری آپریشن شروع کیا۔ فوجی حکومت نے عام انتخابات میں اکثریت حاصل کرنے والی پارٹی عوامی لیگ پر پابندی عائد کردی اور اس کے 160 منتخب اراکین میں سے 76 کو غدار قرار دے کر نااہل کردیا۔ اس اقدام سے عوامی لیگ کے منتخب اراکین کی تعداد 84 رہ گئی۔
بنگالی پاکستان کے خالق تھے، انہوں نے 56 فی صد ہونے کے باوجود پاکستان کی محبت میں خود کو صرف 50 فی صد ہونا قبول کیا تھا۔ مگر مغربی پاکستان کے حکمران طبقے نے ہر طرح سے عاقبت نااندیشی سے فیصلے کیے۔ مشرقی پاکستان کا مسئلہ سیاسی تھا اور سیاسی مسائل ہمیشہ بات چیت، مذاکرات اور مکالمے کے ذریعے ہی حل کیے جاتے ہیں، مگر پاکستان کے حکمرانوں نے بنگالیوں سے طاقت کی زبان میں بات کی۔ انہیں نو آبادیاتی کالونی کا درجہ دیا۔ مشرقی پاکستان بننے سے قبل جنرل ایوب نے گیارہ سال اور جنرل یحییٰ نے تین سال تواتر سے حکومت کی۔ لہٰذا اس بحران کی زیادہ ذمے داری فوجی قیادت پر آتی ہے، اگر باجوہ صاحب انکار کرتے ہیں یوں ٹھیک ہے کہ ذمے داری سیاسی اور فوجی دونوں حکمرانوں پر عائد ہوتی ہے۔ البتہ زیادہ ذمے دار فوج ہے، وہ تو سیاسی معاملات کو قوت سے حل کرنے کی عادی ہوتی ہے۔
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن شروع ہوا۔ فوج اور مکتی باہنی کے درمیان جھڑپیں ہونے لگیں۔ بھارت کی فوج عملی طور پر مکتی باہنی کے ساتھ شامل تھی۔ 3 دسمبر کو انڈین فوج پاکستان کے خلاف جنگ میں باقاعدہ شامل ہوگئی۔ تین دسمبر کو مغربی پاکستان کے محاذ پر بھی جنگ شروع ہوچکی تھی۔ جنرل یحییٰ کی حکومت کا بیانیہ آخر تک یہ تھا کہ ’’پاکستان جنگ جیت رہا ہے اور ارض پاک کے ایک ایک انچ کا دفاع کیا جائے گا‘‘۔ لیکن محض بارہ دن بعد 16 دسمبر 1971ء کو مشرقی پاکستان میں جنرل نیازی کی کمانڈ میں لڑنے والی پاک فوج نے بھارت کی فوج کے سامنے ہتھیار ڈال دیے۔ جنگ عظیم دوم کے بعد جنگی قیدیوں کے لحاظ سے یہ ہتھیار ڈالنے کا دنیا کا سب سے بڑا واقعہ تھا۔
کہا جاتا ہے کہ جمہوریت قوموں اور ملکوں کو مضبوط بناتی ہے۔ مگر 1970ء کے انتخابات کی وجہ سے پاکستان 1971ء میں ٹوٹ گیا۔ مگر اس میں خطا جمہوریت کی نہیں تھی۔ مغربی پاکستان کے حکمران طبقے نے مشرقی پاکستان کی اکثریت کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا تھا۔ یہ ایک سیاسی مسئلہ تھا جس کو فوجی قوت سے حل کرنے کی کوششیں کی گئیں۔ سوال یہ ہے کہ ہم نے مشرقی پاکستان کے بنگلادیش بننے سے کیا سبق سیکھا؟ کیا ہم نے اس کی وجوہات اور اس پر تحقیق کے لیے کوئی ادارہ قائم کیا؟ ہمارے ہاں تو حمودالرحمن کمیشن کی رپورٹ کو بھی خفیہ رکھا گیا، اب جا کر کوئی پانچ عشروں یعنی پچاس سال بعد اس کو عوام کے لیے کھولا گیا۔ ہمارے ہاں تو اس بات پر بھی منہ نہیں کھولا گیا کہ 1970ء اور 1971ء میں مظالم کس نے کیے تھے؟ کون تھا جو تشدد کو ہوا دے رہا تھا؟ بھارت اور بنگلادیش کے قوم پرست مکتی باہنی کے ہمدردوں نے جھوٹے پروپیگنڈے کے ذریعے دنیا کو بتایا کہ پاکستان کی افواج نے لاکھوں بنگالیوں کو قتل کیا۔ حالاں کہ یہ حقیقت کے برخلاف تھا۔ اس بارے میں غیر جانبدار تحقیق کا دروازہ بھی بھارتی نژاد مصنفہ اور ریسرچ اسکالر ڈاکٹر شرمیلا بوس نے کھولا۔ ان کی یہ ریسرچ انتہائی اہم تھی۔ ڈاکٹر شرمیلا بوس ہندوستان کی تحریک آزادی کے رہنما ’’سبھاش چندر بوس‘‘ کی پوتی ہیں، ان کا تعلق آکسفورڈ یونیورسٹی کے شعبہ سیاسیات اور بین الاقوامی ریسرچ سے بھی ہے۔ انہوں نے اپنی تحقیق کتاب کی صورت میں شائع کی جن کا نام Dead Reckoning ہے۔ اس کتاب میں ڈاکٹر شرمیلا بوس نے تحقیق کے ذریعے ثابت کیا کہ پاکستانی فوج کی طرف سے قتل و غارت کے واقعات بڑھا چڑھا کر افسانوی انداز میں پیش کیے گئے۔ اس کے مقابلے میں بنگالی قوم پرست خود شدید قسم کے انسانیت سوز جرائم میں ملوث تھے۔ سوال یہ ہے کہ پاکستان جو اس کا پہلا متاثر تھا وہاں اس کے لیے کسی تحقیق کا دروازہ کیوں نہ کھولا گیا؟ اب بھی اس دروازے کو پوری قوت سے کھولنے کی ضرورت اس لیے ہے تاکہ پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا کا توڑ کیا جائے اور اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ ہم اپنے بنگالی بھائیوں کے دلوں کے زخم کو تحقیق کے قلم سے مندمل کرسکیں۔ جھوٹے بیانیہ کا توڑ سچا بیانیہ ہی ہوتا ہے۔