کچھ حساب کتاب اس کا بھی

439

ایک مقامی یونیورسٹی میں کرپشن کے خلاف مہم کے آخری روز تقریب میں شرکت کا موقع ملا، ممتاز تجزیہ کار ڈاکٹر فاروق عادل مہمان خصوصی تھے، یونیورسٹی کے وائس چانسلر جناب ڈاکٹر محمد منصور احمد بھی تقریب میں شریک ہوئے، تقریب میں نوجوان نسل کے خیالات سن کر اطمینان ہوا کہ ابھی اس قوم میں دم باقی ہے اور بہتری کی نبض چل رہی ہے، اس تقریب میں بھی ڈاکٹر فاروق عادل نے کرپشن کے انسداد کے اصل طریق کار پر گفتگو کی اور ان کی گفتگو نوجوان نسل کو فتنہ کی اصل تصویر آسان پیرائے میں سمجھانے کی بہترین کوشش تھی، یہ بات واقعی بہت تکلیف دہ ہے کہ کرپشن ہمارے معاشرے میں رچ بس گئی ہے اور ہم ایسے الجھ گئے ہیں کہ کبھی کبھی کرپشن میں خود ملوث ہونے پر بھی احساس نہیں ہوتا کہ ہم غلط کرر ہے ہیں، ایسا شاید اس لیے بھی ہے کہ ایک پختہ تاثر موجود ہے اور کسی حد تک حقائق بھی اسی سوچ کا ساتھ دیتے معلوم ہوتے ہیں کہ کوئی بھی جائز کام رشوت اور سفارش کے بغیر نہیں ہوتا، ہاں البتہ ایک ان پڑھ اور پڑھے لکھے شخص کی کرپشن میں بہت فرق ہے اور پڑھے لکھے شخص کی کرپشن زیادہ خطر ناک ہے، اب دیکھیے، بھٹو دور میں اوپن یونیورسٹی کا پرانا نام پیپلز اوپن یونیورسٹی تھا، ضیاء الحق آئے تو بھٹو کا دیا ہوا نام تبدیل کرکے اسے علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کا نام دے دیا۔ اس تبدیلی پر کتنے اخراجات اٹھے ہوں گے؟ ماضی میں ایک بہت ہی سینئر کالم نگار (اس وقت دنیا میں نہیں رہے) نگران حکومت میں وزیر اعظم معراج خالد کی کابینہ میں اطلاعات و نشریات کے وزیر بنائے گئے، پہلے ہی دن انہوں نے گھر آنے والے دودھ کی مقدار میں پانچ گنا اضافہ کردیا، اور وزارت کا نام تبدیل کرکے وزارت اطلاعات و فروغ ابلاغ رکھ دیا، اب کیا تھا، اس فیصلے کے بعد فائلوں سمیت وزارت کی ساری اسٹیشنری تبدیل کرنا پڑی، اور اس پر ’’بھاری بجٹ‘‘ خرچ ہوا، جب انتخابات ہوئے تونئی حکومت آگئی، اس نے وزارت کا نام پھر بدل کر پرانا نام بحال کردیا، اور ایک بار پھر وزارت کی اسٹیشنری تبدیل ہوئی، حال ہی میں اسلام آباد کی ایک شاہراہ کا نام کشمیر ہائی وے سے تبدیل کرکے سری نگر ہائی وے رکھا گیا، نام کی تبدیلی پر 73 کروڑ اخراجات آئے کہ تمام سائن بورڈز پر سری نگر ہائے وے لکھا جانا تھا۔
تحریک انصاف کا دعویٰ تھا بلکہ بڑا اعتراض اٹھایا کرتی تھی کہ سرکاری وسائل سیاسی مقاصد کے لیے استعمال نہیں ہونے چاہییں، اسلام آباد میں اس حکومت کے دوران تمام پارک کے جنگلوں کو پارٹی پرچم کے مطابق رنگ روغن کیا گیا، اور صحت کارڈ پر پارٹی پرچم کا کلر کیا گیا، اب نئی حکومت آئی اس کو اپنے حساب سے تبدیلی لانی ہے، تحریک انصاف نے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کو احساس پروگرام کا نام دیا، اب پیپلزپارٹی پی ڈی ایم کی حکومت کا حصہ ہے، اتفاق سے یہ محکمہ پیپلزپارٹی کے پاس ہے لہٰذا نام پھر تبدیل ہوگیا، اس پر کتنے اخراجات اٹھے ہوں گے؟ اب ایک خبر ہے کہ حکومت نے نوجوان کاروباری افراد کے لیے وزیراعظم کی بلاسود اور رعایتی قرضہ اسکیم کے دوبارہ اجرا کا اعلان کردیا ہے۔ اسٹیٹ بینک کے نوٹیفکیشن کے مطابق اس اسکیم کے تحت تین مختلف سلیب کے تحت 75 لاکھ روپے تک کے قرضے رعایتی شرح سود (صفر تا 7 فی صد تک) پر زیادہ سے زیادہ 9 سال کی مدت کے لیے دیے جائیں گے، پروسیسنگ کی مدت 45 یوم سے تجاوز نہیں کرے گی، ایک چوتھائی قرضے خواتین کے لیے مختص کیے گئے ہیں مخلوط حکومت نے نام بدل کر اس اسکیم کو پرائم منسٹرز یوتھ بزنس اینڈ ایگریکلچر لون اسکیم کا نیا نام دیا ہے۔ تحریک انصاف نے مسلم لیگ(ن) کا دیا ہوا نام بدل کر اس اسکیم کو پرائم منسٹرز کامیاب جوان یوتھ انٹرپرینیور شپ کا نام دے رکھا تھا، محض نام کی تبدیلی پر اب کتنے اخراجات اٹھیں گے اور تحریک پاکستان کے دور میں نام بدلنے پر کتنا بجٹ صرف ہوا تھا؟ اسی طرح مری روڈ راولپنڈی بھی اس کا نام ایوب خان دور میں تبدیل ہوا اور رضا شاہ پہلوی روڈ رکھ دیا گیا، یہ دور ختم ہوا، پھر ریکارڈ میں مری روڈ واپس آگیا، ماضی قریب میں محترمہ بے نظیر بھٹو لیاقت باغ میں شہید ہوئیں تو مری روڈ کا نام تبدیل کرکے بے نظیر بھٹو روڈ رکھ دیا گیا، سینٹرل اسپتال کا نام تبدیل کرکے بے نظیر بھٹو اسپتال رکھ دیا گیا، ظاہر اخراجات تو اٹھے ہوں گے، حال ہی میں جب عمران خان لانگ مارچ کی قیادت کرتے ہوئے راولپنڈی پہنچے تو ان کا پڑائو ایک پارک میں تھا، جس کا نام نواز شریف پارک ہے، مگر پرویز الٰہی حکومت نے اس پارک کا نام تبدیل کرکے علامہ اقبال پارک رکھا دیا ہے، اب ریکاڈ بھی تبدیل ہوگا اور اخراجات بھی اٹھیں گے۔
یہ محض چند چھوٹی چھوٹی مثالیں ہیں یوں سمجھ لیجیے کہ دیگ کا ایک دانہ ہے، اب ایک خبر کہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے گزشتہ تقریباً دس سال میں توشہ خانے سے تمام سیاستدانوں، فوجی سربراہان، ججوں اور بیوروکریٹس کو ملنے والے تحائف کی تفصیلات طلب کرلی ہیں اور اس بات کا بھی آڈٹ ہوگا کہ نیا پاکستان ہائوسنگ اتھارٹی نے کتنی رقم جاری کی کتنے گھر تعمیر ہوئے پبلک اکاونٹس کمیٹی نے 2013 سے 2022 تک کا توشہ خانے کا مکمل ریکارڈ ایڈیٹر جنرل کو فراہم کرنے کا حکم دیا ہے اور ہدایت کی ہے سیاستدانوں، جنرلوں، ججوں اور بیوروکریٹس کو ملنے والے تحائف کی تفصیلات پیش کی جائیں اب اس ہدایت کے بعد سیکرٹری کابینہ ڈویژن نے عدالت عظمیٰ، آرمی، نیوی، ائر فورس اور صوبائی گورنروں کو خط لکھ دیا ہے، اب اس خط کی روشنی میں جب نئی تفصیلات آئیں گی پھر بات ہوگی۔