چینی صدر کا دورہ سعودی عرب، چین ایران کشیدگی بھارت پر حملہ؟

591

چین کے صدر شی جن پنگ سعودی عرب کے تین روزہ دورے کے فوری بعد چین اور ایران کے درمیان کشیدگی میں بے پناہ اضافہ ہوگیا اور ایران نے چین کے سفیر کو تہران طلب کرکے چین کے صدر شی جن پنگ سعودی عرب کے تین روزہ دورے کے بعد جاری ہونے والے مشترکہ اعلان پر سخت احتجاج کیا ہے۔ مبصرین کے نزدیک یہ دورہ ریاض کی جانب سے مغربی اتحادیوں کی خواہشات کے برخلاف اپنے مفادات کی بنیاد پر فیصلے کرنے کا اشارہ ہے۔ لیکن اب ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ایران کو بھی دورے پر شدید تحفظات تھے جس کا اظہار آخر کار اس نے کر دیا۔ اس دورے کے ساتھ ہی چین نے بھارت پر بھی حملہ کر دیا اور اب یہ بتایا جارہا ہے اس میں بھارت کا جانی نقصان بھی ہوا ہے لیکن انڈین اخبارات کے مطابق اس جھڑپ میں بھارتی سپاہی معمولی زخمی ہوئے ہیں جبکہ عالمی خبریں بتا رہی ہیں اس جھڑپ میں بھارتی افواج کا جانی نقصان بھی ہوا ہے۔
صدر شی جن پنگ 2016 کے بعد سعودی عرب کا دورہ ان حالات میں کررہے ہیں جب تیل کی پیداوار کم کرنے پر امریکا اور مغربی ممالک تیل پیدا کرنے والے ملکوں کی تنظیم اوپیک کے فیصلے پر تحفظات کا اظہار کرچکے ہیں۔ سعودی عرب اس تنظیم کی فیصلہ سازی میں اہم ترین کردار ادا کرتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ دورہ ولی عہد محمد بن سلمان کے لیے بھی اہمیت کا حامل ہے کیوں کہ 2018 میں جمال خاشق جی کے قتل کے بعد بین الاقوامی سطح پر پڑنے والے دباؤ سے نکل کر وہ ایک بار پھر عالمی سیاست کے اسٹیج پر فعال ہوگئے ہیں۔ خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق اس دورے کے موقعے پر محمد بن سلمان عرب دنیا کے لیڈر کے طور پر اپنی طاقت کے اظہار کے لیے مشرقِ وسطیٰ اور شمالی افریقا کے حکمرانوں کو جمع کرکے ایک ’چین عرب‘ سمٹ بھی کرایا جس کی وجہ سے ایرانی حکومت نے اپنے احتجاج میں تمام خلیجی
ممالک کا بھی نام لیا ہے۔ خلیجی ممالک خلیج فارس کے آس پاس واقع مشرق وسطیٰ کے سات ممالک کو کہا جاتا ہے۔ ان میں سعودی عرب، عراق، کویت، بحرین، متحدہ عرب امارات، عمان اور قطر شامل ہیں۔ دورے سے قبل سعودی عرب نے گزشتہ ماہ عندیہ دیا تھا کہ دو طرفہ تعلقات کو مضبوط بنانے سمیت خطے کی سیکورٹی صورتِ حال بھی چینی صدر کے دورے کے ایجنڈے میں شامل ہوگی۔
خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق تھنک ٹینک یورشیا گروپ میں مشرقِ وسطیٰ اور شمالی افریقا کو شامل کرکے سعودی عرب نے یہ بھی بتایا سعودی عرب سمجھتا ہے کہ اسے اور دیگر خلیجی اور شمالی افریقا کے ممالک کو اسٹرٹیجک مفادات کی وجہ سے چین کے ساتھ تعلقات کو آگے بڑھانا ہوگا۔ اس بات سے انکار نہیں ہے برسوں سے خلیجی ریاستوں کے لیے امریکا سے تعلقات اہم رہیں گے کیوں کہ وہ اپنی سیکورٹی کے لیے امریکا پر انحصار کرتی ہیں۔ سعودی عرب چوں کہ اب اپنی معیشت کو وسعت دینا چاہتا ہے اور تیل پر اپنے اقتصادی انحصار کو دیگر شعبوں میں بھی منتقل کرنا چاہتا ہے۔ اس لیے سعودی عرب کی خارجہ پالیسی اس کے معاشی مفادات متعین کررہی ہے۔ ریاض اور واشنگٹن میں کشیدگی کے درمیان صدر جن پنگ کے سعودی عرب کے دورے سے سب سے زیادہ دشواریوں کا سامنا امریکا کو ہے۔ چین کے ساتھ تعلقات بڑھانے میں سعودی عرب کے لیے رسک تو ہے کیوں کہ اس کے نتیجے میں امریکا کے
ساتھ اس کے تعلقات میں دوریاں مزید بھی بڑھ سکتی ہیں۔ تاہم یہ بات یقینی ہے کہ محمد بن سلمان سوچ سمجھ کر ہی آگے بڑھ رہے ہیں۔
شی جن پنگ نے ایک ایسے وقت میں سعودی عرب کا دورہ کیا ہے جب امریکا اور سعودی عرب کے تعلقات انتہائی نچلی سطح پر آچکے ہیں۔ توانائی کی عالمی منڈیوں میں بے یقینی کی فضا ہے کیوں کہ مغربی ممالک روس کے تیل کی قیمتوں کی حد متعین کرنا چاہتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی امریکا کو مشرقِ وسطیٰ میں چین کے بڑھتے ہوئے اثر رسوخ پر بھی تشویش ہے۔ رائٹرز کے مطابق سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ اپنے دورے میں چینی وفد سعودی عرب اور دیگر عرب ریاستوں کے درمیان توانائی، سیکورٹی اور سرمایہ کاری کے کئی معاہدوں پر دستخط ہوئے ہیں جن سے ایران کو خدشات کا سامنا ہے۔ ان معاہدوں کی باضابطہ تفصیلات بعد میں سامنے آئیں گی تاہم دونوں ممالک کے مشترکہ مفادات کے بارے میں اعداد و شمار سے ترجیحات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
یہ بات بڑی اہمیت کا حامل ہے کہ چین، سعودی عرب کا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر ہے۔ 2021 تک دونوں ممالک کا مشترکہ تجارتی حجم 87 ارب ڈالر سے زیادہ ہوچکا تھا۔ سعودی عرب کے لیے چین کی برآمدات کا سالانہ حجم 30 ارب ڈالر سے زائد ہے۔ جب کہ چین سعودی عرب سے سالانہ 57 ارب ڈالر کی درآمدات کرتا ہے۔ سعودی عرب چین کو تیل کا سب سے بڑا سپلائر ہے۔ چین اپنی تیل کی کل ضروریات کا 18 فی صد سعودی عرب سے حاصل کرتا ہے۔ 2022 کے 10 ماہ کے اعدادو شمار کے مطابق چین نے سعودی عرب سے ساڑھے 55 ارب ڈالر کا تیل خریدا۔ گزشتہ برس چین نے سعودی عرب سے 45 ارب ڈالر سے زائد کا تیل خریدا تھا۔ اس کے علاوہ سعودی عرب کی سرکاری کمپنی آرامکو نے چین کی چھے نجی ریفائنریوں کے ساتھ تیل کی فراہمی کے معاہدے کیے ہیں۔ رواں برس آرامکو نے شمال مشرقی چین میں 10 ارب ڈالر کی مالیت سے آئل ریفائنری تعمیر کرنے کے لیے سرمایہ کاری کا فیصلہ کیا تھا۔ تکمیل کی صورت میں یہ چین میں آرامکو کی سب سے بڑی سرمایہ کاری ہوگی۔
چینی صدر شی جن پنگ کے دورہ سعودی عرب کو چین اور خلیج کے عرب ممالک کے درمیان تجارت و سرمایہ کاری کے اعتبار سے بھی اہم قرار دیا جارہا ہے۔ خلیج تعاون کونسل میں شامل عرب ریاستیں چینی مصنوعات کی بڑی منڈیاں شمار ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ چین کے لیے ان ممالک میں تعمیراتی شعبے اور ڈیجیٹل اکنامی کے شعبے میں کئی امکانات ہیں۔ خلیج کے زیادہ تر عرب ممالک میں امریکا کے تحفظات کے باوجود فائیو جی ٹیکنالوجی کی تنصیب کا کام چینی ٹیکنالوجی کمپنی ہواوے نے کیا ہے۔ ہواوے سعودی عرب میں اپنے نئے ڈیٹا سینٹر کے قیام کے لیے کسی مقام کا تعین کررہی ہے جو ابوظبی کے بعد خطے میں اس کا سب سے بڑا ڈیٹا سینٹر ہوگا۔
خلیجی عرب ممالک کے عہدے داران کا کہنا ہے کہ واشنگٹن ان کا اسٹرٹیجک شراکت دار رہے گا۔ لیکن خطے کے لیے ضروری ہے کہ وہ چین اور روس سمیت دیگر شراکت داروں کے ساتھ بھی اپنے اقتصادی اور سیکورٹی مفادات کو آگے بڑھائیں۔ سعودی عرب تجارتی تعلقات بڑھانے کے لیے مشرق کی طرف دیکھ رہا ہے جب کہ ہماری سلامتی اور سرمایہ کاری سے متعلق زیادہ تر تعلقات مغرب میں ہیں۔ رائٹرز کے مطابق خلیج تعاون کونسل کے ممالک اور چین کے درمیاں 2010 سے 2021 کے دوران تجارتی حجم دگنا ہوا ہے۔ یہ ساری صورتِ حال پاکستان کو یہ بتا رہی ہے کہ وہ جس قدر جلدی ہو امریکا کے جال سے نکل کر خطے میں قائم ہونے والے عسکری اور تجارتی اتحاد میں شامل ہو جائے اس کو اسی قدر فائدہ ہوگا۔