’’اخلاقی دیوالیہ پن سے معاشی دیوالیہ پن تک‘‘

785

گستاخی معاف! لیکن یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ بے ایمان، بدعنوانی اور جھوٹ جیسی عادات یہ ہمارے مزاج کا حصہ بن چکی ہیں اور بحیثیت قوم اخلاقی لحاظ سے ہم دیوالیہ پن کا شکار ہوچکے ہیں۔ ایک عام فرد سے لے کر حکومت کی سطح کے اعلیٰ ترین ذمے داران تک اخلاقی دیوالیہ پن میں مبتلا ہیں۔ گزشتہ شدید بارشوں کی وجہ سے مجھے اپنے گھر کی ازسرنو تعمیر و مرمت کی ضرورت لاحق ہوئی، یقین کیجیے متاثرہ گھر کی بحالی کے لیے مجھے معمار سے لے کر الیکٹریشن اور پلمبر تک نے جتنا پریشان کیا، جتنی زیادہ انہوں نے بار بار وعدہ خلافیاں کیں جس قدر دھڑلے سے جھوٹ بولا اس نے مجھے دہلا کر رکھ دیا۔ جن دکانداروں سے لوہا، سریا، سیمنٹ وغیرہ خریدنے کا موقع ملا سب کے ہاں قیمتوں کا نمایاں فرق دیکھنے کو ملا۔ جھوٹی قسم اللہ کو گواہ بنا کر کھانا تو گویا ہمارے ہاں ایک معمول بن چکا ہے۔ اخلاقی زوال اور پستی کی انتہا دیکھ کر غم اور مایوسی اس حد تک دامن گیر ہوگئے کہ میں وقتی طور پر ششدر رہ گیا۔ بدقسمتی سے ہر سطح پر ہر شعبہ میں یہی صورت حال ہے۔ نبی کریمؐ کی ایک حدیث پاک کا مفہوم ہے کہ ’’ایک ایسا وقت بھی آئے گا کہ ہر فرد ہی بے ایمانی اور بدعنوانی کا ارتکاب کرے گا‘‘ اور گمان یہ گزرتا ہے کہ شاید آج وہی وقت آن پڑا ہے۔ ہمارے معاشرے میں اب حالت یہ ہوگئی ہے کہ اگر کوئی شخص اخلاقی اصولوں کی پاس داری کی بات کرے تو وہ ’’ایب نارمل‘‘ گردانا جاتا ہے اور دوسرے لوگ اسے ایک طرح سے ’’نکما‘‘ بنا کر رکھ دیتے ہیں۔
صوبہ سندھ میں کرپشن بے حد بے حساب ہے۔ ہر سطح پر ہے، اور ہر سرکاری ادارے میں ہے، اگر وسیع تناظر میں لکھا جائے تو ’’سندھ‘‘ کے بجائے ’’پاکستان لکھ دینے سے بھی کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ نامور صحافی کرسٹینا لیمب نے ایک مرتبہ لکھا تھا کہ پاکستان کا ہر شہری ’’حسب توفیق‘‘ کرپٹ ہے اور کتنا سچ لکھا تھا کتنا برحق لکھا تھا جب ایک عام شہری بے اختیار ہونے کے باوصف بدعنوانی کے عمل میں حسب موقع اور حسب توفیق اپنا حصہ ڈالنے سے نہیں کتراتا تو جو ’’بااختیار‘‘ اور کرتا دھرتا ہیں وہ اپنے اپنے شعبے میں کیا کیا گُل نہ کھلاتے ہوں گے اور کس کس انداز میں بہتی گنگا سے ہاتھ دھونے کے لیے کارہا نمایاں سرانجام نہ دیتے ہوں گے؟ وہ محتاجِ بیان بالکل بھی نہیں ہے۔ ہمارا صوبہ تو خصوصاً ہر قسم کی کرپشن اور بے ایمانی کے حوالے سے اب اپنی مثال آپ ثابت ہوچکا ہے۔ شاید ہی کوئی دن ایسا گزرتا ہے کہ جب کسی نہ کسی ضلع یا شہر کے وزیر، مختار کار، پٹواری یا کسی دوسرے سرکاری ذمے دار کی جانب سے متاثرین بارش و سیلاب کی امداد کے لیے آنے والے سامان کی مارکیٹ کی دکانوں پر سرعام فروخت کی شرم ناک اور افسوس ناک خبریں سامنے نہ آتی ہوں۔ لیکن اس اخلاقی دیوالیہ پن کے مرتکب کسی بھی سرکاری ذمے دار کے خلاف تاحال کسی تادیبی یا محکمانہ کارروائی کی کوئی اطلاع سامنے نہیں آئی ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ حصہ بہ قدر حصہ سبھی کو بڑی ایمان داری کے ساتھ پہنچ جاتا ہے۔
گزشتہ دنوں ضلع نوشہرو فیروز اور ضلع مٹیاری کے ڈپٹی کمشنرز کی جانب سے سندھ بینک کے عملے کے ساتھ مل کر موٹر وے کی تعمیر کے لیے وفاق سے آنے والی چار ارب روپے کی رقم میں سے 2 ارب 35 کروڑ روپے غیر قانونی طور پر نکلوانے کے الزام میں گرفتاریوں نے ہماری بیوروکریسی کے افسران کے کردار کے متعلق نئے مباحث کا آغاز کر ڈالا ہے۔ سندھ کا ایک عام فرد یہ بات ماننے کے بالکل تیار نہیں ہے کہ مذکورہ اسکینڈل کے ذمے داران صرف مذکورہ ڈی سی صاحبان اور سندھ بینک کا عملہ ہے۔ سندھی اخبارات اور الیکٹرونک میڈیا کے بیش تر مبصرین کی آرا میں اربوں روپے کی اوپر بیان کردہ بدعنوانی میں اعلیٰ ترین سطح کے حکومتی ذمے داران سر تا پا ملوث ہوسکتے ہیں۔ ہمارے افسران اور بیوروکریٹس کسی بھی موقع پر بدعنوانی کرنے سے باز نہیں رہتے۔
گھوٹکی کے کچے کے علاقے میں نصف درجن پولیس افسران اور اہلکاروں کو شہید کرنے والے ڈاکوئوں کے خلاف پولیس کی جانب سے آپریشن کا اعلان تو کردیا گیا ہے لیکن یہاں بھی ’’مری تعمیر میں مضمر ہے اک صورت خرابی کی‘‘ جیسی صورت حال ہے اور آپریشن کرنے کے لیے ایسے 21 پولیس اہلکاروں کے نام بھی شامل کردیے گئے ہیں جو ماضی میں ہونے والے پولیس مقابلوں اور دیگر حادثات کی وجہ سے جسمانی معذوری کا شکار ہیں۔ اب یہ اہلکار دہائی دے رہے ہیں کہ ان کے نام جان بوجھ کر اس پولیس آپریشن کے لیے دیے گئے ہیں اور ان کے نام قلم زد کروانے کے لیے بھی ان سے رشوت طلب کی جارہی ہے۔ بھلا اس سے کہیں بڑھ کر بھی اخلاقی پستی اور بدعنوانی کی انتہا کوئی اور بھی ہوسکتی ہے کہ پہلے ہی سے پریشان حال اور جسمانی معذوری میں مبتلا پولیس اہلکاروں سے ان کے اپنے ہی محکمے کے بدعنوان عناصر رشوت طلب کررہے ہیں۔ ابھی یہ سطور لکھنے میں مصروف تھا کہ ہاکر اخبارات کا ایک پلندہ دے گیا ہے۔ سب سے پہلی نظیر کثیر الاشاعت سندھی اخبار ’’سوبھ‘‘ کراچی کی اس خبر پر پڑی ہے جس میں لکھا ہے کہ ’’ڈھرکی میں مقامی کباڑی سے سرکاری اسکولوں میں تقسیم کے لیے بھیجی جانے والی درجہ اوّل تا دہم لاکھوں روپے مالیت کی درسی کتب برآمد۔ پولیس نے مقدمہ درج کرلیا‘‘۔ مطلب یہ ہے کہ ہمارے سرکاری تعلیمی ادارے بھی اب بجائے علم کے فروغ کے علم فروشی کے مراکز میں تبدیل ہوچکے ہیں۔ ظاہر ہے کہ مذکورہ لاکھوں روپے مالیت کی درسی کتب ڈھرکی کے ایک مقامی کباڑی کے پاس ضلع ڈھرکی کے متعلقہ ضلعی تعلیمی افسران کی منشا اور آشیرباد کے بغیر پہنچ ہی نہیں سکتیں۔ بدقسمتی سے ہر شہر اور ہر ضلع میں اسی طرح کی بدنما صورت حال درپیش ہے۔ سرکاری اسپتالوں کے لیے آنے والی ادویات تو میڈیکل اسٹورز پر پہلے ہی سے سرعام فروخت کی جارہی تھیں۔ اب درسی کتابیں کباڑیوں کے ہاں فروخت ہونے کا مکروہ دھندہ بھی شروع ہوچکا ہے۔ سندھ کی سرکاری یونیورسٹیوں میں اقربا پروری، بدعنوانیوں اور بدانتظامی کی وجہ سے جو ہولناک صورت حال جنم لے چکی ہے وہ ایک الگ سے آرٹیکل کا تقاضا کرتی ہے۔ خصوصاً شاہ عبداللطیف یونیورسٹی خیرپور توکرپشن، نااہلی اور بدانتظامی کا ایک بہت بُرا استعارہ بن کر رہ گئی ہے۔ ایسے میں پاکستان کے عن قریب خاکم بہ دہن دیوالیہ ہونے کے بارے میں آنے والی خبریں اور پیش گوئیاں بے حد افسوسناک اور لائق تشویش ہیں۔ اخلاقی حوالے سے تو ہم ہر طرح سے دیوالیہ پن میں مبتلا ہوچکے ہیں۔ خدا نہ کرے کہ معاشی حوالے سے بھی ہمیں کبھی دیوالیہ ہونے کا صدمہ عظیم سہنا پڑے۔ اللہ وہ روزِ بد نہ لائے آمین۔