قومی امانت

418

امیر جماعت اسلامی کا کہنا ہے کہ حکمران طبقے کے قول و فعل کے تضاد نے قوم کو ایسی نہج پر کھڑا کر رکھا ہے جس سے آگے بڑھنے کا کوئی راستہ نہیں سیاسی رہنما ووٹ کو عزت دو کی باتیں تو بہت کرتے ہیں مگر عملاً ووٹ کی تضحیک کا کوئی موقع نہیں گنواتے اور اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ عوام کو ووٹ کی قدر و قیمت کا احساس ہی نہیں، ووٹ ایک قیمتی امانت ہے بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ ایک مقدس امانت ہے اور امانت صادق و امین لوگوں کی تحویل ہی میں دی جاتی ہے۔ عدالتوں سے امین و صادق کی سند لینے والے نہ امین ہوتے ہیں نہ صادق ہوتے ہیں وہ صرف عدلیہ کے لاڈلے ہوتے ہیں جب تک قوم کو اس حقیقت کا ادراک نہیں ہوگا پاکستان کبھی اسلامی فلاحی مملکت نہیں بن سکتا امیر جماعت نے اسٹیبلشمنٹ کے غیر جانبدار رہنے کے عزم کو بہت اہم قرار دیا ہے، ان کے تجزیے کے مطابق اسٹیبلشمنٹ غیر جانبدار رہے گی تو پی ڈی ایم اور پی ٹی آئی کی سیاست ختم ہو جائے گی ان کو عوام کے مسائل و مصائب و مشکلات کی کوئی فکر نہیں ان کی نظریں آرمی چیف کی چھڑی پر لگی ہوئی ہیں۔
محترم سراج الحق نے اس بات پر دکھ کا اظہار کیا ہے کہ ملک کے خزانے سے ایک کروڑ روپے کی کوئی بھی چیز 20لاکھ روپے میں خرید کر ہڑپ کر لی جاتی ہے مگر عام آدمی کو یہ سہولت میسر نہیں، یہ کیسی بدنصیبی ہے کہ ملک کے وسائل حکمران طبقہ ذاتی مصرف میں لاکر حکومت چلانے کے لیے قرض پہ قرض لیتا ہے جس ملک کا آدھا بجٹ قرضوں کی ادائیگی میں چلا جائے وہ ملک کس طرح چل سکتا ہے، اس کی معیشت اپنے پائوں پر کیسے کھڑی ہو سکتی ہے، ستر، پچھتر برسوں سے ملک کے وسائل کو بڑی دیدہ دلیری سے لوٹا جارہا ہے ربِ کائنات نے پاکستان کو وسائل سے مالا مال کیا ہے مگر غیر منصفانہ تقسیم نے عوام کو افلاس کی دلدل میں دھنسا دیا ہے، جب تک کرپشن اور سودی نظام سے نجات حاصل نہیں کی جاتی عوام روٹی کے ایک ایک لقمے کو ترستے رہیں گے، سیاسی جماعتیں ملک و قوم کی فلاح و بہبود میں بری طرح ناکام ہو چکی ہیں، ضرورت اس امر کی ہے کہ قرآن و سنت کے نظام کو نافذ کرنے کے لیے اہل اور ایماندار لوگوں کو ووٹ دیا جائے، عشرت گہہ خسرو کے مکین اپنی عیاشیوں کے لیے کشکول اٹھائے ملک ملک جارہے ہیں، اگر کوئی ملک امداد کا وعدہ کر لیتا ہے تو یہ لوگ وکٹری کا نشان بناتے واپس آجاتے ہیں۔
شرم الشیخ کانفرنس میں قدرتی آفات کے نتیجے میں ترقی پزیر اور افلاس زدہ ممالک کی مددکے لیے فنڈز قائم کرنے کی تجویز پیش کی گئی، وعدہ وفا ہوتا ہے یا نہیں مگر ہمارے حکمران اسی وعدے پر شادیانے بجا رہے ہیں سیاست کو تجارت بنانے والے کرپشن پر قابو پانا نہیں چاہتے کہ یہی تو ان کی عیاشی اور من مانی کرنے کا وسیلہ ہے، ہر سال لگ بھگ پانچ ہزار ارب روپے کی بد عنوانی ہوتی ہے سب سے زیادہ کرپشن بلوچستان میں ہوتی ہے، یہ کیسا نظام ہے کہ ایک کروڑ روپے کے منصوبے میں پینسٹھ لاکھ روپے بدعنوانی کی دیوی کی بھینٹ چڑھا دیے جاتے ہیں اس بدعنوانی کے نتیجے میں عوام بنیادی ضروریات سے محروم رہتے ہیں، سندھ پنجاب اور پختون خوا میں اربوں روپے کی روزانہ کرپشن ہوتی ہے مگر حکمران طبقہ اس کرپشن کو روکنے کے لیے کوئی مثبت اقدامات نہیں کرتا کیونکہ وہ خود بھی اس کرپشن کا حصے دار ہے، اس لیے اپنا حصہ لے کر خاموش تماشائی بنا رہتا ہے اور عوام اس کے نتائج بھگتتے رہتے ہیں اگر یہی طبقہ برسراقتدار رہا تو ملک کبھی ترقی نہیں کر سکتا۔ عوام بنیادی سہولتوں اور ضروری مراعات سے محروم ہی رہیں گے، سیلاب زدہ علاقوں میں مختلف بیماریاں پھیل رہی ہیں مگر متاثرین کو خوراک دستیاب ہے نہ ادویات میسر ہیں، مرکزی اور صوبائی حکومتیں اقتدار کی جنگ میں مصروف ہیں عوام پر کیا گزر رہی ہے حکمرانوں کو یہ سوچنے کی مہلت ہی نہیں، عوام سیاست دانوں سے بدظن ہو چکے ہیں ان کی بدظنی کا واضح ثبوت یہ ہے کہ سیلاب زدگان کی امداد کے لیے جو امدادی کیمپ لگائے گئے تھے، عوام نے سیاسی جماعتوں کو نہ امداد دی نہ عطیات دیے، بلکہ فوج، رینجرز اور الخدمت فائونڈیشن کو دل کھول کر مالی امداد دی، کیونکہ وہ اس حقیقت سے آگاہ ہیں، اقتدار اسٹیبلشمنٹ کی دی ہوئی خیرات ہوتا ہے ملکی وسائل اور توشہ خانہ کی لوٹ مار میں شامل لوگ عوام کی فکر نہیں کرتے ان میں کوئی گاڑی چور ہے، کوئی ہار چور ہے اور کوئی گھڑی چور ہے، گویا سبھی چور ہیں، اور چور چور کس شور مچانا ان کا سیاسی منشور ہے جس کو جب بھی چوری کا موقع ملتا ہے وہ فائدہ اٹھانے میں دیر نہیں لگاتا، کروڑوں کے تحائف کوڑیوں میں خرید کر بیرون ملک جائداد بنائی جاتی ہیں۔
الخدمت فائونڈیشن کے پچاس ہزار کارکنوں نے سیلاب زدگان کی ہر ممکن خدمت کی ہے، محترم سراج الحق نے قوم کے اعتماد پر خدا کا شکر ادا کیا ہے، عوام نے ان پر اعتماد کر کے اربوں روپے کے عطیات دیے ہیں کیونکہ عوام کو احساس ہو گیا ہے کہ ان کی امداد اور عطیات صحیح جگہ پر صرف ہوں گے اس پس منظر میں عوام کو اپنا ووٹ بھی دیانتدار لوگوں ہی کو دینا چاہیے کیونکہ ووٹ انتہائی قیمتی امانت ہے اور امانت دیانتدار لوگوں کے سپرد کی جاتی ہے۔ جس دن عوام کو ووٹ کی قدر و قیمت کا احساس ہوگیا اس دن پاکستان ایک اسلامی فلاحی مملکت بن کر اقوام عالم میں سرفراز و سربلند ہوگا۔