عمران خان تھوڑا آرام کریں

635

ملک کے معروف وکیل اور سیاست دان اعتزاز احسن نے ایک پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ فی الوقت عمران خان کو آرام کرنا چاہیے، یہ اب سے تین چار ماہ پہلے اسمبلیاں تحلیل کرتے تو انتخابات میں نتائج ان کی توقعات کے مطابق آتے اب یہ اگر اسمبلیاں توڑیں گے تو میرے خیال میں نتائج تیس فی صد کم آئیں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ عمران خان نے مسلسل جلسے کرکے اپنے کارکنان اور ووٹرز کو تھکا دیا ہے۔ اعتزاز احسن کی اس رائے سے میں مکمل اتفاق کرتا ہوں کہ اس وقت ملک کی جو معاشی صورتحال ہے وہ بہت خوفناک ہے کہ کچھ دن پہلے سے یہ خبریں آرہی تھیں۔ حسب حال کے اینکر جنید سلیم نے اب سے دو ہفتے پہلے یہ خبر دی تھی کچھ عرصے بعد پاکستانیوں کو مرغی کا گوشت نہیں مل سکے گا اس کی وجہ یہ بتائی گئی کہ ان برائلر مرغیوں کی فیڈ باہر سے آتی ہے وہ کراچی کی بندرگاہ پر پچھلے کئی دنوں سے ڈمپ ہے اس کو چھڑانے کے لیے بینک لیٹر آف کریڈٹ نہیں کھول رہے ہیں اس لیے کہ ملک میں ڈالر نہیں ہے، اس کے لیے پولٹری کے کار وبار سے وابستہ کاروباری حضرات نے اشتہارات کے ذریعے وزیر اعظم شہباز شریف اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار سے اپیل کی ہے کہ وہ اس بحران پر خصوصی توجہ دیں ورنہ آنے والے حالات میں اہل وطن کو شاید مرغی کا گوشت نہ مل سکے اور اس کے علاوہ اس شعبے سے وابستہ لاکھوں افراد کے بے روزگار ہوجانے کا بھی اندیشہ ہے۔
ایک طرف ملک کی یہ معاشی صورتحال ہے دوسری طرف عمران خان اس چکر میں ہیں کہ کسی طرح ملک میں جلد عام انتخابات ہو جائیں تاکہ وہ جلد از جلد ملک کہ وزیر اعظم بن جائیں چاہے ملک کی گاڑی چلانے کے لیے خزانہ بالکل خالی ہو اب جب سے عمران خان نے صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کا اعلان کیا ہے، پی ڈی ایم کی حکومت کو تھوڑی سی گھبراہٹ تو ہوئی ہے کہ وہ پہلے یہ کہتے تھے عمران خان اپنی صوبائی اسمبلیاں توڑیں تو ہم بھی قومی اسمبلی کی تحلیل کا اعلان کر دیں گے، اس کی وجہ یہ ہے کہ پی ڈی ایم والے یہ سمجھ رہے تھے کہ عمران خان کسی بھی حالت میں اسمبلیاں تحلیل نہیں کریں گے۔ عمران خان کے اس اعلان کے بعد پنجاب کے وزیر اعلیٰ ٰچودھری پرویز الٰہی نے کہا کہ یہ اسمبلی عمران خان کی امانت ہے وہ جب حکم دیں گے ہم ایک منٹ نہیں لگائیں گے اسمبلی کو تحلیل کرنے میں۔ پی ٹی آئی کا موقف ہے کہ جب ملک میں سیاسی استحکام ہو گا تو اس سے معاشی استحکام بھی آئے گا موجودہ حکومت سے کوئی بین الاقوامی معاہدے اسی لیے نہیں ہو پارہے ہیں کہ پوری دنیا جانتی ہے کہ جس حکومت کی مدت تین چار ماہ ہو اس سے کیا معاہدات کیے جائیں۔ ایک انٹرویو میں چودھری فواد حسین کہہ رہے تھے کہ ہم نے 20دسمبر کی تاریخ اسی لیے دی ہے کہ بائیس تیئس مارچ سے رمضان شروع ہورہے ہیں اس لیے قبل از وقت اسمبلی توڑنے کے بعد 90 دن کے اندر انتخاب کرانا ضروری ہوتا ہے۔ جب اسمبلی اپنی آئینی مدت پوری کرتی ہے تو اس کے لیے 60دن کے بعد انتخابات کرانا ہوتا ہے۔
جب عمران خان کہتے تھے کہ حکومت تاریخ کا اعلان کرے تو ہم مذاکرات کے لیے تیار ہیں حکومت کہتی تھی کہ اگر ہم نے تاریخ دے دی تو پھر مذاکرات کس بات کے۔ پھر یہ ہوا کہ عمران خان نے یہ اعلان کیا ہم مذاکرات کے لیے تیار ہیں کہ آپس میں بیٹھ کر الیکشن کی تاریخ کے تعین کر لیں عمران خان اس بیان کے بعد رانا ثناء اللہ نے کہا کہ ٹھیک ہے الیکشن کی تاریخ پر مذاکرات ہو سکتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی مریم اورنگ زیب کا بیان آیا کہ الیکشن تو اپنے وقت پر یعنی اکتوبر 2023 ہی میں ہوں گے بلکہ اس سے بھی آگے بڑھ کر مولانا فضل الرحمن کہہ رہے ہیں کہ آنے والے الیکشن ایک سال یا چھے ماہ کے لیے آگے بڑھا دیے جائیں یعنی آئندہ الیکشن 2024 میں ہونے چاہییں۔ اب جب کہ کچھ برف کے پگھلنے کے آثار دکھائی دینے لگے تو پی ڈی ایم کے رہنمائوں کے بیانات سخت سے سخت تر ہوتے جارہے ہیں ہو سکتا ہے یہ پی ڈی ایم کی حکمت عملی کا حصہ ہو، ادھر اسحاق ڈار نے صدر مملکت عارف علوی سے چار پانچ ملاقاتیں کر لی ہیں اس ملاقات میں ملک کی معاشی حالات کے علاوہ سیاسی صورتحال اور انتخابات کے حوالے سے بھی بات ہوئی ہو گی۔ ایک موقع پر یہ اطلاع آئی کے اسحاق ڈار نے کہا وہ نواز شریف سے مشورہ کرکے آپ کے پاس دوبارہ آئیں گے۔ صدر عارف علوی ثالثی کا کردار ادا کررہے ہیں وہ عمران خان سے بھی ہر وقت رابطے میں ہوں گے اگر کچھ نکات پر اتفاق رائے ہوگیا تو کسی اعلان سے پہلے پی ڈی ایم اپنی تمام اتحادی جماعتوں کا اجلاس بلائے گی اور اس اجلاس میں اسحاق ڈار مذاکرات کی تفصیل رکھیں گے وہاں سے منظوری حاصل کرنے کے بعد اس کا اعلان کیا جاسکتا ہے لیکن دوسری طرف عمران خان اور اسحاق ڈار کے درمیان طے ہونے والے نکات کو جس طرح پی ڈی ایم اپنے اتحادی جماعتوں کے درمیان مشاورت کے لیے لے جائے گی اسی طرح پی ٹی آئی اپنے کور کمیٹی کے اجلاس میں اس پر غور خوض کرسکتی ہے۔
پی ڈی ایم کی تو یہ خواہش ہوگی کہ اسحاق ڈار عمران خان کو ملک کی خطرناک معاشی کیفیت سے آگاہ کریں گے اور یہ بات سمجھانے کی کوشش کریں گے کہ اگر ہم اکتوبر تک انتظار کرلیں اور اس درمیان الیکشن کے طریقہ کار پر گفت و شنید ہو جائے تو ہم ایک شفاف الیکشن کرانے کی پوزیشن میں آسکتے ہیں اسی طرح الیکشن کمیشن کی طرف سے یہ بھی بیان آیا ہے کہ وہ ای وی ایم (الیکٹرانک ووٹنگ مشین) کے مخالف نہیں ہیں اس کی خریداری پر جو کئی ارب کے اخراجات آرہے ہیں وہ ناقابل برداشت ہیں۔
ویسے تو سننے میں یہ آرہا ہے کہ پرویز الٰہی نے اپنی دستخط کرکے عمران خان کو دے دیا ہے کہ وہ جب چاہیں اسمبلی تحلیل کرسکتے ہیں لیکن ان کی طرف سے یہ بات بھی کی گئی ہے کہ انہیں کم از کم چار ماہ کا موقع دیا جائے تاکہ ترقیاتی کاموں کے جو منصوبے انہوں نے تیار کیے ہیں وہ اگر پورے نہ بھی ہو سکیں تو کم از کم اتنی تو ان میں پیش رفت ہوجائے کہ بعد کی آنے والی کوئی حکومت اسے ختم نہ کرسکے۔ اس درمیان میں عمران خان کچھ آرام کرلیں تاکہ ان کے زخم ٹھیک ہوجائیں اگر وہ برا نہ مانیں تو ایک مشورہ یہ بھی ہے کہ وہ اس درمیان میں پورے ملک میں اپنی نگرانی میں انٹرا پارٹی انتخابات کروالیں۔