آزاد کشمیر میں بلدیاتی انتخابات اور عوام کی بالغ نظری

404

آزاد کشمیر میں 31برس بعد بلدیاتی انتخابات کا انعقاد جمہوری عمل کی مضبوطی کے لیے ہوا کا تازہ جھونکہ ہے، آزاد کشمیر تحریک آزادی کا بیس کیمپ ہے اس حوالے سے آزاد کشمیر میں بلدیاتی انتخابات بڑی اہمیت کے حامل ہیں، مظفرآباد اور پونچھ ڈویژن کے عوام نے بلدیاتی انتخابات میں جس بالغ نظری کا ثبوت دیا ہے اس کو ایک مثال کہا جاسکتا ہے، آزاد کشمیر کے بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے ہمارے پڑوسی دشمن ملک کے وزیر اعظم نریندر مودی نے بھی نظریں گاڑ رکھیں تھیں کہ یہاں لڑائی جھگڑے ہوں گے اور آزاد کشمیر کے لوگ اس کا الزام پاکستان پر لگائیںگے اور مقبوضہ کشمیر کے عوام کو یہ پیغام ملے گا کہ بیس کیمپ کے عوام اب پاکستان کے خلاف ہوگئے ہیں آپ پاکستان سے امیدیں وابستہ رکھنا چھوڑدیں، ہندوستانی قیادت کی امیدوں پر اس وقت اوس پڑھ گئی جب آزاد کشمیرکے عوام نے جمہوری انداز سے اپنے ووٹ کا حق استعمال کیا اور پرامن طریقے سے اپنے نمائندے منتخب کیے، رواداری کی اعلیٰ مثالیں قائم کیں۔
پاکستان میں ابتر سیاسی حالات کی وجہ سے بھی آزاد کشمیر میں بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے بڑی چہ مگوئیاں تھیں کہ ہوں گے بھی یا نہیں ہوںگے، کافی رکاوٹیں بھی ڈالی جارہیں تھیں، سیکورٹی مسائل کا ذکر بھی بڑی شد ومد سے کیا جارہا تھا، آزاد کشمیرکے باشعور عوا م اور خاص کر نوجوانوں کا مطالبہ تھا کہ بلدیاتی انتخابات ہر صورت ہونے چاہییں، چاہے مرحلہ وار ہی ہوں، اگرچہ تمام سیاسی اور مذہبی جماعتوں کا مشترکہ مطالبہ تھا کہ بلدیاتی انتخابات پورے آزاد کشمیر میں ایک ہی دن کرائے جائیں، ایک ہی دن ہوجاتے تو زیادہ اچھا تھا۔
مظفرآبادا ور پونچھ ڈویژن میں بھرپور انداز سے سیاسی اور مذہبی جماعتوں نے مہم چلائی آزاد امیدوار بھی بڑی تعداد میں میدان میں اُترے اور کامیاب بھی ہوئے، انتخابی مہم کے دوران میں رواداری کی فضاء قائم رہی تمام امیدواروں اور ان کے حمایتیوں نے ایک دوسرے کا خیال رکھا، پولنگ اسٹیشن پر برادرانہ ماحول دیکھ کر مجھے یوں لگا کہ اگر ایک بھی پولیس اہلکار نہ ہوتا تب بھی اچھے انداز سے پولنگ ہوجانی تھی۔ یہ عوام کے اندر شعور کی اعلیٰ مثال تھی۔ وہ عناصر ناکام ہوئے جو اس تاک میں تھے کہ ان انتخابات کو پاکستان کے خلاف مہم کے طور پر استعمال کریں گے۔
آزاد کشمیر میں بلدیاتی انتخابات میں ہر طبقہ فکر کو نمائندگی ملی ہے، قوم پرستو ںکا سارا وا ویلا غارت گیا، عوام نے ان پر اعتماد نہیں کیا یہ عوام کی اجتماعی سوچ کا کھلا مظہر ہے۔ سماج میں ایسے عناصر بری طرح ناکام ہوئے، عوام نے ان کی باتوں اور پروپیگنڈے پر کان نہیں دھرے۔ میرپور ڈویژن کے انتخابات میں بھی امید قوی ہے کہ پرامن ہوںگے اور عوام اپنی مرضی سے اپنے نمائندے منتخب کریںگے۔ جمہوری ممالک میں بلدیاتی اداروں اور نمائندوں کی بڑی اہمیت ہے ان اداروں اور نمائندوں کی وجہ سے عوام براہ راست حکومت میں شریک ہوتے ہیں، قوم کو نئے اور وژن والی قیادت میسر آتی ہے اور عوام کے مسائل بھی حل ہوتے ہیں منصوبوں میں کرپشن بھی کم کی جاتی ہے چونکہ اگر کوئی بڑا ٹھیکیدار کرپشن کی کوشش بھی کرے گا تو یہ نمائندے رکاوٹ ہوںگے۔ بلدیاتی ادارے اور نمائندے حکومت کے مدد گار بھی ہوتے ہیں، حکومت کا بوجھ کم کرتے ہیں، گلی محلے کے مسائل حل کرتے ہیں، حکومت کو چاہیے کہ وہ اختیار بلدیاتی اداروں اور نمائندوں کو منتقل کرے، ان اداروں اور نمائندوں کو باوقار اور بااختیار بنائیں۔ یہ جو تاثر ہے کہ بلدیاتی نمائندوں کے فنگشنل ہونے سے ارکان اسمبلی متاثر ہوںگے یہ غلط سوچ ہے، ارکان اسمبلی اور وزراء کا بوجھ کم ہوگا اور وہ آزادی سے قانون سازی کرسکیں گے، قومی سطح کی سیاست کریں گے اور قوم کی ترجمانی اور نمائندگی کریںگے۔
بیس کیمپ کی حکومت عوام اور نمائندوں کی دوہری ذمے داری ہے، ایک آزاد خطے کے مسائل حل کرنا اور دوسرا بقیہ کشمیر کی آزادی کے لیے جدوجہد کرنا، مقبوضہ کشمیر کے اندر مودی کشمیریوں کی نسل کشی کررہا ہے روزانہ کی بنیادوں پر قتل عام جاری ہے، کشمیریوں کو بندوق کی نوک پر ہندوستان اپنے ساتھ رکھنے کی سازش کررہا ہے۔ 15لاکھ فوج رکھنے کے باوجود کشمیری آزادی کے نعرے لگار رہے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر کے اندر جس سطح کے بھی انتخابات ہوتے ہیں، ہندوستان کی فوج گن پوائنٹ پر ووٹ ڈلواتی ہے، پنچایتی انتخابات ہوں یا ریاستی سطح کے انتخابات، فوج دھاندلی کراتی ہے۔ ورنہ اپنے مطلب کے نتائج حاصل نہیں کرسکتے۔ اب مودی سرکار نے اس بھی آگے بڑھ کر ہندوستان کے ہندووں کو لاکر آباد کرنے کی ساز ش کی ہے، فوجیوں کو بھی ووٹ دینے کی اجازت دے رہی ہے تاکہ کشمیریوں سے یہ حق بھی چھین لیا جائے۔ کشمیری ہندوستان کے تمام مظالم اور ہتھکنڈوں کے باوجود آزادی کے مورچے میں ڈٹے ہوئے ہیں۔ جمہوریت پسند اقوام کو بھی دیکھنا چاہیے کہ آزاد کشمیر کے اندر کس طرح آزادی سے عوام اپنے ووٹ کا حق استعمال کررہے ہیں اور مقبوضہ کشمیر کے اندر کس طرح ہندوستان کی قابض فوج مداخلت کرکے کشمیریوں کو ان کے بنیادی حق سے محروم کررہی ہے۔ بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کے راستے میں ساری رکاوٹیں ریت کی دیوار ثابت ہوئیں۔ بلدیاتی انتخابات کے پرامن انعقاد سے کشمیری عوام کے سیاسی شعور کا بھی اندازہ ہوا، آزاد کشمیر کے اندر سیاسی شعور دیگر علاقوںکے مقابلے زیادہ ہے یہ حقیقت کھل کر سامنے آئی ہے، یہاں کے عوام نے ثابت کیا ہے کہ وہ سیاسی عمل پر یقین رکھتے ہیں اور سیاسی عمل کے تسلسل کے خواہاں ہیں۔
منگلا پاور پلانٹ کی افتتاح تقریب کے موقع پر وزیر اعظم پاکستان اور وزیر اعظم آزاد کشمیر کے درمیان ناخوشگوار واقع نہیں ہونا چاہیے تھا، پاکستان کی سیاسی قیادت اور بیورو کریسی کو اس حساسیت کا خیال رکھنا چاہیے، کشمیری اسلامی مقدس مقامات کے بعد پاکستان کو اپنی امیدوں کا مرکز ومحور خیال کرتے ہیں پاکستان میں حکومت جس بھی سیاسی پارٹی کی ہو کشمیری بجاطور پر توقع رکھتے ہیں کہ ان کے قومی تشخص کو مجروح نہیں کیا جائے گا اور مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے اقدامات کیے جائیںگے۔