پاکستان کے حالات میں کشمیر کو بھولتے جا رہے ہیں؟

438

پاکستان اس وقت تاریخ کے نازک ترین دور سے گزر رہا ہے۔ پاکستان کو اس وقت تاریخ کے سب سے بڑے سیلاب کا سامنا ہے اور اس کا تقریباً 3/4فی صد حصہ پانی میں ڈوبا ہوا ہے۔ لوگ بے بسی کے عالم میں کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں جہاں انہیں کھانے پینے کی اشیاء میسر ہیں اور نہ چھت۔ دن بھر لوگ پانی کی لہروں کو گنتے رہتے ہیں اور رات کو انہیں مچھروں کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ کوئی بھی حکومت یا پھر سیاسی جماعت جو ان کے ووٹوں سے ایوانوں تک پہنچی اور اقتدار حاصل کرتی ہیں ان کے قریب تک جانے کی روادار نہیں۔ ان جماعتوں اور حکومتوں نے لوگوں کو حالات کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا ہے۔ جماعت اسلامی پاکستان اور اس کی الخدمت فائونڈیشن نے ان کی اشک شوئی کی ہے اور اس کے رضاکاروں نے اپنے آپ کو خطرے میں ڈالتے ہوئے ریسکیو اور ریلیف کا کام کیا ہے اور بہت سارے لوگوں کی جان بچائی ہے۔ انفرادی طور پر کچھ اور تنظیموں نے بھی کام کیا ہے لیکن ہمہ گیر اور ہمہ جہت کام صرف جماعت اسلامی نے کیا ہے۔
بہر حال ایک طرف سیلاب کی تباہ کاریاں اور دوسری طرف پاکستانی سیاستدان جو آپس میں دست و گریباں ہیں۔ سیلاب جیسی تباہی بھی ان سب کو ایک میز پر نہ لا سکی بلکہ اس تباہ کن صورتحال میں بھی ایک دوسرے کو گرانے اور اپنے اسکور بڑھانے میں مصروف عمل نظر آتی ہیں۔ سوائے جماعت اسلامی پاکستان اور اس کے امیر سراج الحق جو تمام سیاسی سرگرمیوں کو خیر آباد کہہ کر لوگوں کی بحالی اور ریلیف کے کاموں میں لگے ہوئے ہیں۔ 6 ارب روپے سے زائد رقم اور سامان خورو نوش لوگوں تک پہنچا چکے جبکہ یہ سلسلہ جاری و ساری ہے۔ اس موقع پر پوری قوم نے بھی جماعت پر اعتماد کیا ہے اور اربوں روپے جماعت کے حوالے کیے کہ ہمیں جماعت پر اعتماد ہے۔ کاش پاکستان کے لوگ سیاسی طور پر بھی اسی طرح جماعت پر اعتماد کرتے تو آج پاکستان کو یہ دن نہ دیکھنے پڑتے جو وہ دیکھ رہا ہے۔ سیلاب نے تو تھوڑی تباہی مچائی لیکن ہمارے اپنے ہاتھوں نے بہت تباہی مچائی ہے۔ یہ بلوچستان، سندھ اور کے پی کے میں سیکڑوں بند ٹوٹے ہیں۔ ان کا ذمے دار کون ہے؟ یہ جو آبی راستے تھے ان پرغیر قانونی تعمیرات کس نے کروائی؟ یہ جو دریا کے کنارے ہوٹل اور پلازے تعمیر ہوئے ان سب کا ذمے دار کون ہے؟ اس وقت کشمیر میں جو نوسیری اور کوہالہ پروجیکٹ کی ٹنل پانی سے بیٹھ گئی ہے جس پر کھربوں روپے خرچ ہوئے اس کا ذمے دار کون ہے؟ اس سے پہلے 2005 کے زلزلے میں پہلے ہی جھٹکے میں کالجز، اسکولز اور حکومتی عمارتیں زمین بوس ہو گئیں جن سے بیس ہزار بچے شہید ہوئے اس کا ذمے دار کون ہے؟ اس ملک میں ہے کوئی پوچھنے والا؟ ہے کوئی حقیقی احتساب کرنے والا؟ اس میں سیلاب اور زلزلے تبا ہی نہ لائیں گے تو اور کیا ہو گا؟ خود اللہ پاک نے قرآن کریم کے اندر ارشاد فرما یا ہے ’’زمین میں اور بحر وبر میں گناہ بھر گیا ہے اور یہ ہمارے ہاتھوں کی کمائی ہے‘‘۔
بہرحال پاکستان کی صورتحال جو ہماری اپنی پیدا کردہ ہے اس میں ہم نے کشمیر کو بھلا دیا ہے۔ ماضی میں بھی ہم نے کشمیر کے حوالے سے اپنی ذمے داریاں ادا نہیں کیں اور اب تو ہمیں سیلاب کا بہانہ بھی مل گیا ہے۔ اسی کی آ ڑ میں ہم نے بھارت سے پیاز اور ٹماٹر کی تجارت شروع کر دی ہے اور اب پٹ سن بھی منگوانے کی تیاری ہو رہی ہے جو ایک شرمناک عمل ہے اور شہدائے کشمیر سے بے وفائی کے مترادف ہے۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ تسلسل سے پاکستان کشمیر کے معاملے میں پسپائی اختیار کر رہا ہے۔ اس سے پہلے کنٹرول لائن پر جنگ بندی کا معاہدہ ہوا پھر ماضی کو بھلا کر تعمیر وترقی کے وعدے ہوئے اور اب تجارت شروع کر دی گئی ہے جبکہ دوسری طرف نریندر مودی پوری منصوبہ بندی سے کشمیر کو بھارت میں ضم کرنے کی پالیسی پر گامزن ہے۔ ہم نے دیکھا کہ حالات کچھ بھی ہوں ہم جتنا بھی شور مچائیں اور جتنا بھی واویلا کر لیں۔ دنیا کو نوٹس لینے کا کہیں۔ بھارت ان سب کو نظر انداز کر کے کشمیر کو ہڑپ کرنے کی پالیسی پر گامزن ہے۔ پہلے اس نے 35 A اور 370 کو ختم کیا۔ کشمیر کی ڈیمو گرافی کو تبدیل کیا۔ غیر ریاستی لوگوں کو لا کر آباد کیا گیا اور اسلامی کلچر کو ہندو کلچر میں تبدیل کیا گیا۔ عمارتوں کے اسلامی نام تبدیل کیے گئے اور ہماری طرف سے خاموشی نریندر مودی کو شیر بنا دیتی ہے۔ وہ اپنے اقدامات میں تیزی لا رہا ہے اور جارحانہ انداز اختیار کیے ہوئے ہے۔ اس موقع پر ہم ایک دوسرے کو فتح کرنے میں لگے ہوئے ہیں اور فوج بھی بھارت کی جارحانہ پالیسی کا جواب دینے کے بجائے اسلام آباد کی کرسی پر اپنے لاڈلوں کو بٹھانے کے چکر میں لگی ہوئی ہے۔ کشمیر کو انڈیا میں پوری طرح ضم کر دے گا اور ہم دیکھتے رہ جائیں گے۔ اس لیے یہ وقت ہے آگے بڑھ کر کشمیر میں مودی بدمعاش کا مکو ٹھپ دیں۔ خدا نخواستہ کشمیر میں مودی کا سدباب نہ کیا تو اس کا اگلا ہدف آزاد کشمیر ہے اور پھر آ زادکشمیر کا حصول اس کے لیے مشکل نہیں رہے گا۔ بے شک ہم کہتے رہیں کہ آخری گولی اور آخری سانس تک ہم لڑتے رہیں گے۔ کل اگر ہم کو اسی طرح لڑنا ہے تو اس سے بہتر ہے کہ آج ہی کیوں نہ لڑیں۔ آج ہم نے کشمیر آزاد کرا لیا تو وہ ہم سے آزاد کشمیر نہیں لے سکے گا۔
’’شاید کہ تیرے دل میں اتر جائے میری بات‘‘