بیمار معیشت کا کمزور بجٹ

438

پچھلے ہفتے وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے 74 واں وفاقی بجٹ قومی اسمبلی کے ایسے ماحول میں پیش کیا جہاں نہ کوئی نعرے بازی تھی اور نہ ہی ہنگامہ آرائی، نہ بجٹ کاپیاں پھاڑ کر پھینکی گئیں اور نہ اسپیکر کا گھیرائو کیا گیا۔ وفاقی وزیر خزانہ اطمینان اور سکون سے بجٹ کے اعداد و شمار پیش کرتے رہے اور سابقہ حکومت پر تیراندازی بھی کرتے رہے۔ چلتے ہیں بجٹ کے اعداد و شمار کی طرف مالی سال 2022-23 کے وفاقی بجٹ کا کل حجم ساڑھے 9 ہزار ارب روپے ہے جس میں سے صوبوں کا حصہ 4 ہزار ارب روپے اور دفاع کے لیے 1500 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ قرضوں پر سود کی ادائیگیاں 4 ہزار ارب روپے کی ہیں جب کہ سرکاری ملازمین کی پنشن پر 530 ارب روپے خرچ کیے گئے ہیں۔ جہاں تک آمدنی کا معاملہ ہے تو اس میں ٹیکسوں کی وصولیابی کا ہدف 7 ہزار ارب روپے جب کہ نان ٹیکس آمدنی کا تخمینہ 2 ہزار ارب روپے ہے۔ بجٹ خسارہ پونے چار ہزار ارب روپے ہے جسے ملکی اور بیرونی قرضوں سے پورا کیا جائے گا۔ اسی طرح مہنگے موبائل فون، بھاری گاڑیوں کی رجسٹریشن، بینکوں کے منافع اور جائداد کی خریدو فروخت اور رجسٹریشن پر ٹیکس لگادیا گیا ہے۔ چھوٹے اور بڑے ریٹیلرز جو ملک میں لاکھوں کی تعداد میں اُن پر بجلی کے بلوں کے حساب سے تین ہزار سے دس ہزار تک ٹیکس وصول کیا جائے گا۔ تنخواہ دار طبقے کو یہ رعایت دی گئی ہے کہ ماہانہ ایک لاکھ روپے کی تنخواہ انکم ٹیکس سے مستثنیٰ ہے۔
وفاقی بجٹ 2022-23 میں کچھ اہداف بھی رکھے گئے ہیں۔ برآمدات کا ہدف 35 ارب ڈالر، بجٹ خسارہ جی ڈی پی کا 4.9 فی صد، محاصل کی وصولی جی ڈی پی کا 9.2 فی صد، مہنگائی کی شرح 11.5 فی صد، پٹرولیم لیوی کی سالانہ وصولی 670 ارب روپے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بجٹ پیش کرنے کے اگلے ہی دن سے بجٹ کی خامیاں اور کمزوریاں سامنے آنے لگیں اور اب جب کہ ایک ہفتہ گزر چکا ہے ماہرین معاشیات اور مالیات کی طرف اعتراضات سامنے آگئے ہیں۔ پہلی بات تو یہ کہ خود وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل پریس کانفرنس میں کہہ رہا ہے کہ آئی ایم ایف بجٹ سے مطمئن نہیں ہے مطلب یہ کہ پاکستانی عوام چاہے مطمئن ہوں یا نہ ہوں ہمیں ہر حال میں آئی ایم ایف کو مطمئن اور خوش کرنا ہے جس کا مطالبہ یہ ہے کہ مالی خسارہ کنٹرول کیا جائے اور ادائیگیوں کے توازن (BOP) کو بہتر کیا جائے۔ حکومت نے اس خسارے کو کم کرنے کے لیے پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں تین بار اضافہ کیا ہے۔ جس کے بعد پٹرول 233 روپے فی لٹر، ڈیزل 263 روپے فی لٹر اور مٹی کا تیل 211 روپے فی لٹر ہوگیا ہے۔ اس کے نتیجے میں غریب اور متوسط طبقے کی زندگی میں جو عذاب آئے گا اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ اسی طرح ٹرانسپورٹیشن کی لاگت بڑھنے سے مہنگائی کا جو طوفان آئے گا اس سے مہنگائی کی شرح طے شدہ ہدف سے آگے 20 سے 25 فی صد تک چلی جائے گی۔
بجٹ میں تنخواہ دار طبقے کو انکم ٹیکس میں جو رعایت دی گئی تھی آئی ایم ایف کے مطالبے پر ان کو واپس لینے پر غور کیا جارہا ہے۔ اسی طرح بجٹ خسارہ کا ہدف جو 4.9 فی صد ہے وہ بھی سال کے آخر تک دگنا ہوجائے گا۔ ایک طرف آئی ایم ایف کی شرائط میں دوسری طرف کمزور معیشت ہے اور تیسری طرف غریب عوام ہیں اس سلسلے میں سب سے بہتر اقدامات یہ ہیں کہ ملک کے متمول طبقے اور اشرافیہ پر بوجھ ڈالا جائے اور کفایت شعاری کی مہم چلائی جائے لیکن اس اتحادی حکومت کی پالیسیوں میں ایسا نظر نہیں آرہا۔ مثلاً پورے ملک میں 16 سو سی سی کی گاڑیوں کو سڑکوں پر آنے سے روک دیا جائے۔ اس سے پٹرول اور ڈیزل کا استعمال کم ہوجائے گا اور درآمدی بل کم ہوگا۔ تجارتی خسارہ کم ہوجائے گا۔ ڈالر کے ریٹ جو اس وقت 208 روپے ہوچکے ہیں کنٹرول میں آجائیں گے۔ مزید یہ کہ ملک کی اشرافیہ جس کی مراعات کی مالیت 4000 ارب روپے ہے ان میں کمی کی جائے اس سے بجٹ خسارہ کم ہوگا۔ ورنہ ہم آئی ایم ایف، ورلڈ بینک، سعودی عرب اور چین کے قرضے پر کب تک ملک چلائیں گے۔