مزدور کے مسائل سڑکوں پر احتجاج سے حل ہوں گے ، فرحت پروین

292

نیشنل آرگنائزیشن فار ورکنگ کمیونٹیز نے ٹرسٹ فار ڈیموکریٹک اینڈ اکائونٹیبلٹی کے تعاون سے سندھ میں کم از کم اجرت کے نفاذ پر مشاورتی اجلاس 19 مئی کو کراچی میں منعقد ہوا۔ اس موقع پر NOWC کی رہنما فرحت پروین نے کہا کہ مزدور تحریک کے کمزور ہونے سے محنت کشوں کے حالات زندگی خراب ہوگئے ہیں۔ محکمہ محنت کے غیر فعال ہونے سے مزدوروں کو قانونی حقوق بھی نہیں ملتے۔ رجسٹرڈ یونین کو مالکان تسلیم نہیں کرتے۔ ملازمت پیشہ خواتین کو حقوق حاصل کرنے کے لیے اتحاد کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ماضی کی طرح آج بھی مزدور تحریک کو مزدور بستیوں میں منظم کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ سندھ میں کم از کم اجرت کے قانون پر عمل کروایا جائے تا کہ مزدور مہنگائی کا مقابلہ کرسکیں۔ محکمہ محنت کے افسران نے پروگرام میں آنے کا کہا تھا لیکن نہیں آئے، جو سخت قابل مذمت ہے۔ دراصل محکمہ محنت کے اعلیٰ افسران پبلک کو فیس نہیں کرسکتے۔ انہوں نے حکمرانوں سے اپیل کی کہ وہ بجٹ بناتے وقت محنت کشوں سے بھی تجاویز حاصل کریں۔ ٹرسٹ فار ڈیموکریٹک اینڈ اکائونٹیبلٹی کے رہنما سلمان خواجہ نے کہا کہ بعض علاقوں میں خواتین کو ووٹ کا حق بھی نہیں دیا جاتا۔ ملازمت پیشہ خواتین کے مسائل حل کرنے کی ضرورت ہے۔ خواتین بھی سیاست میں اپنا کردار ادا کریں۔ ملازمت پیشہ خواتین کو ان کے حقوق بتائے جائیں۔ ویمن ورکرز الائنس کی رہنما رابعہ چوہان نے کہا کہ ملازمت پیشہ خواتین کو کام کی جگہ پر تحفظ دیا جائے، ورکنگ ویمن کو سیسی اور EOBI میں رجسٹرڈ کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ مزدوروں کے حقوق کے تحفظ کے لیے اسٹریٹ پاور استعمال کرنا ہوگی۔ سڑکوں پر جدوجہد کرنے سے مسائل حل ہوں گے۔ NOWC کے رہنما مرزا مقصود نے کہا کہ سندھ میں 2017ء میں سہ فریقی کانفرنس ہوئی تھی جس کے بعد ابھی تک سہ فریقی کانفرنس نہیں ہوئی۔ عدالتی حکم کے مطابق بھی مالکان کم از کم اجرت 17500 روپے مزدوروں کو نہیں دیتے۔ انہوں نے کہا کہ اجرت سب کو یکساں دی جائے۔ ملازمت پیشہ خواتین داد رسی کے لیے آگے نہیں آتیں۔ انہوں نے کہا کہ محکمہ محنت کے تمام اہلکار مزدوروں کی فلاح وبہبود کرنے کی تنخواہ لیتے ہیں لیکن اصل کام سرمایہ داروں کے مفاد میں ہوتا ہے اور حکومت بھی نوٹس نہیں لیتی۔اسٹیٹس فار ویمن سندھ کی چیئرپرسن نزہت شیرین نے کہا کہ دفتر میں عملہ کم ہونے کی وجہ سے کام کرنے میں دشواریاں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ملازمت پیشہ خواتین داد رسی کے لیے مختلف اداروں کو خط لکھیں۔ ڈیلی ویجز پر کام کرنے والی خواتین کا معاوضہ کم دیا جاتا ہے۔ مزدوروں کو تقررنامہ نہیں ملتا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ایک دوسرے سے رابطہ میں رہیں۔سکھر کی رہنما شازیہ نے کہا کہ 80 فیصد ملازمت پیشہ خواتین ہراسگی کا شکار رہتی ہیں۔ کم از کم اجرت بھی خواتین کو نہیں ملتی۔ محکمہ محنت سکھر کے دفتر میں تالے پڑے رہتے ہیں۔ آخر خواتین داد رسی کے لیے کہاں جائیں۔ میرپور خاص کی رہنما مریم زاہد علی نے بھی بتایا کہ محکمہ محنت میرپور خاص کے دفتر میں بھی تالا لگا ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ خواتین کو ہراساں نہ کرنے کے لیے کمشنر نے ہراسگی کو روکنے کے لیے کمیٹی بنادی ہے۔ ایم کیو ایم کی ممبر سندھ اسمبلی رابعہ خاتون نے ملازمت پیشہ خواتین کو اپنے بھرپور تعاون کا یقین دلایا ہے۔ویمن ورکرز الائنس کراچی کی رہنما شمائلہ ناز نے کہا کہ ملازمت پیشہ خواتین کے حقوق دلوانے کے لیے مستقل بنیادوں پر کام کیا جائے۔ ہم نے بعض اسکولوں میں ہراسگی کمیٹی بنوادی ہے۔ نیشنل لیبر فیڈریشن پاکستان کے جنرل سیکرٹری شاہد ایوب نے کہا کہ مزدور حقوق کے تحفظ کے لیے متحد ہو کر کام کیا جائے۔ ملیر کی رہنما بلقیس نے بھی مختصر خطاب کیا۔ پیپلز لیبر بیورو سندھ کے رہنما حبیب الدین جنیدی نے کہا کہ مزدور تحریک کمزور ہونے کے اثرات سیاست پر بھی پڑ رہے ہیں۔ اصل مسئلہ لیبر قوانین پر عملدرآمد ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ محکمہ محنت سندھ کے وہ افسران جو بغیر کام کیے تنخواہ لیتے ہیں، ان کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔ محکمہ محنت کے افسران کے خلاف مختلف اعلیٰ افسران کو شکایتی خطوط لکھیں اور اس خط کی ایک کاپی مجھے بھی دے دیں لیکن اس مسئلے پر میں کچھ کر نہیں سکتا جس پر فرحت پروین صرف مسکرا دیں۔ روزنامہ جسارت کے قاضی سراج نے کہا کہ ڈائریکٹر لیبر سندھ کے دفتر کے باہر مظاہرہ کیا جائے۔

p