یونین انصاف فراہم کرے

197

دستور کے آرٹیکل 17کے تحت ہرشہری کو حق دیا گیا ہے کہ وہ انجمن سازی کے ذریعے اپنے بنیادی حقوق کاتحفظ فراہم کرے، دستور میں ریاست کو بھی پابند کیا گیا ہے کہ دستور کی خلاف ورزی آرٹیکل 6کی خلاف ورزی تصور کی جائے گی۔ یعنی کہ وہ ادارہ اور شخص آئین شکن قرار دیا جائے گا۔ اس تناظر میں ہی قومی اسمبلی، سینیٹ اور صوبائی اسمبلیوں کی سطح پر لیبر قوانین مرتب کیے گئے جس میں ایمپلائر اور ورکرز کو پابند کیا گیا کہ اس کی روشنی میں اداروں میں ٹریڈ یونین رجسٹرڈ کرنے کا حق ورکرزکو دیا گیا ہے اور ایمپلائرکو پابند کیا گیا ہے کہ وہ لیبر لاء کی روشنی میں اداروں میں ورکرز کی سی بی اے یونین جسے ورکرز اپنے ووٹوں سے منتخب کریں گے اور اسے رجسٹرار ٹریڈ یونینزقومی اور صوبائی سطح پر منظوری کا لیٹر جاری کرے گا۔ انڈسٹری وائز اداروں کے لیے این آئی آر سی کا ادارہ قائم کیا گیا اور صوبائی سطح پر لیبر ڈیپارٹمنٹ کے ساتھ ساتھ لیبر کورٹ قائم کی گئی ہیں۔ان قوانین میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری میں شامل ہے کہ لیبرانسپکٹر کے ذریعے انسپکشن اداروں کی کرائیں جہاں لیبر قوانین کے تحت یونین رجسٹرڈ نہیں ہونے دی جارہی وہاں یونینز کو رجسٹرڈ کرکے ورکرز کو تحفظ فراہم کریں لیکن یہاں تو گنگاہ اُلٹی بہتی ہے۔ حکومتوں نے سرمایہ داروں اور بیوروکریسی کے دباؤ میں آکر انسپکشن تقریباً ختم کردی ہے جس کی وجہ سے قومی اور صوبائی سطح پر مستقل بھرتیوں کے بجائے ٹھیکیداری سسٹم رائج کردیا ہے، جن کا اداروں میں کوئی ریکارڈ نہیں رکھا جاتا اور نہ ہی ان کی رجسٹریشن سوشل سیکورٹی میں کرائی جاتی ہے۔ اس میں ایمپلائر اور حکومتی اداروں کی ملی بھگت سے لین دین کا دھندہ جاری رہتا ہے، جس کی وجہ سے ورکرز کی کوئی سنوائی کسی بھی فورم پر نہیں ہوتی۔ سونے پر سہاگا ٹریڈ یونینز میں بھی پاکٹ یونینز نے بھی محنت کشوں کے مسائل میں اضافہ کیا ہے۔ اس وقت بھی نوے فیصد اداروں میں ٹریڈ یونین برائے نام ہے۔ لیبر عدالتوں میں بھی ورکرز کو انصاف نہیں ملتا چونکہ ورکرز کے پاس وسائل نہیں ہیں کہ وہ وکلاء کی فیس ادا کرسکیں جس بنیاد پر ورکرز نہتے ہوگئے ہیں۔ سیاسی پارٹیاں سلوگن کے طور پر محنت کشوں کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال تو کرتے ہیں لیکن ان کے بنیادی مسائل کو حل کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔