پاکستان قحط سالی کے دھانے پر

855

حال ہی میں اقوام متحدہ کے کنونشن برائے انسداد بنجرین نے ’’گلوبل ہینڈ آئوٹ لک‘‘ میں پاکستان کو ان 23 ممالک میں شامل کرلیا گیا ہے جو قحط اور خشک سالی کی صورتحال کا سامنا کررہے ہیں۔ اسی طرح پاکستان میں نئی بننے والی اتحادی جماعتوں کی وفاقی حکومت کی موسمیاتی تبدیلیوں کی وفاقی وزیر شیریں رحمن نے کہا ہے کہ پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جنہیں پانی کی شدید قلت کا سامنا ہے اگر فوری طور پر آبی وسائل کے تحفظ اور موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے اقدامات نہ کیے گئے تو پاکستان شدید مشکلات میں گھر سکتا ہے۔ اسی طرح پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس (PIDE) کی مارچ 2022ء کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کی آبادی دنیا کی آبادی کا 2.8 فی صد ہے جبکہ دنیا کے کل آبی وسائل میں سے اس کا حصہ 0.6 فی صد ہے۔ دنیا کے آبی وسائل کے تناسب سے انڈیا کا نمبر 8، بنگلا دیش کا 12، جبکہ پاکستان کا نمبر 36 ہے۔ مزید یہ کہ پینے کا صاف پانی پاکستان کی صرف 36 فی صد آبادی کو حاصل ہے۔
پانی کے متعلق یہ وہ تلخ حقائق اور تکلیف دہ اعداد و شمار ہیں جس کی ایک جھلک آج کل چولستان، جنوبی پنجاب میں نظر آرہی ہے جہاں شدید گرم موسم اور قحط سالی کے باعث سیکڑوں مویشی وہاں کے رہنے والوں کے سامنے پانی نہ ملنے کے سبب ہلاک ہوگئے ہیں اور بہت بڑی تعداد میں لوگ چولستان سے نقل مکانی کرگئے ہیں۔ وزیراعلیٰ پنجاب، پنجاب ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی، پنجاب ایمرجنسی سروسز اور چولستان ڈویلپمنٹ اتھارٹی زبانی جمع خرچ کرتے رہے اور الخدمت فائونڈیشن کے رضاکار خشک سالی کا شکار دیہاتوں کی مدد کرتے رہے۔
پاکستان میں 80 فی صد پانی چاول، کپاس، گندم اور گنے کی فصل کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جبکہ ان فصلوں کا مجموعی قومی پیداوار (GDP) میں حصہ صرف 5 فی صد ہے۔ ویسے ذرعی شعبہ معیشت کا 20 فی صد اور 40 فی صد افرادی قوت کا روزگار فراہم کرتا ہے لیکن ٹیکس وصولیابی میں اس کا حصہ صرف 0.1 فی صد ہے اس سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے آبی وسائل کا بڑا حصہ کہاں استعمال ہورہا ہے۔
پاکستان کے آبی وسائل کے 78فی صد کا دارو مدار بیرونی ممالک میں موجود ذرائع سے ہے ۔ چنانچہ پانی کی فراہمی کسی بھی ہنگامی صورتحال میں غیر یقینی ہو سکتی ہے۔ زیر زمین پانی کا معقول سسٹم پاکستان کی معاشی ترقی کے لیے بہت ضروری ہے۔ پنجاب میں ٹیوب ویل کی کثیر تعداد ہونے کی وجہ سے زیر زمین پانی کی مقدار کم ہو رہی ہے۔ دوسری طرف نہروں کا بہتر نظام نہ ہونے کی وجہ سے سندھ میں سیم و تھور کے باعث 35فی صد کاشت کے قابل زمین بیکار ہو گئی ہے ۔ ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق پانی کا بہتر سسٹم بنائے بغیر پاکستان ترقی نہیں کر سکتا۔
سندھ طاس معاہدہ جو1960ء میں ہوا تھا اس میں پاکستان کو پانی کا جائز حصہ نہیں دیا گیا۔ چنانچہ اس سے نمٹنے کے لیے پاکستان نے انڈس بیس ایری گیشن سسٹم (1618) بنایا جس میں تین بڑے ڈیم، 85 چھوٹے چھوٹے ڈیم، 19بیراج اور تقریباً 40نہریں شامل ہیں۔ یہ ایک بہت بڑا آب پاشی کا نظام ہے جو ساڑھے چار کروڑ زمین سیراب کرتا ہے۔ دریائے سندھ پاکستان کی مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) میں 25فی صد حصہ لیتا ہے اور غذائی اجناس کی90فی صد پیدا وار میں اس کا حصہ ہے۔ لیکن پانی کی مستقل کمی کے باعث فی کس پانی کا استعمال نصف سے کم رہ گیا ہے اور ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق 2025ء تک پاکستان میں پانی 32فے صد کمی ہو جائے گی جس سے غذائی قلت واقع ہو سکتی ہے۔
پانی کی کمی ہونے کے مختلف اسباب ہیں جن میں آبادی میں اضافہ، موسم کی تبدیلی، ناقص واٹر مینجمنٹ، انسانی فضلہ سے آبی آلودگی، پرانا اور فرسودہ نہری نظام شامل ہیں۔ اس وقت پانی کے مسائل سے نمٹنے کے لیے ایک نیشنل واٹر پالیسی کی ضرورت ہے جو وفاقی حکومت تمام صوبوں کے اشتراک سے تیار کرے۔ اس سلسلے میں سابق گورنر اسٹیٹ بینک ڈاکٹر عشرت حسین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں پانی کا بحران نہیں ہے بلکہ پانی کے انتظام اور تقسیم میں گورننس کا فقدان ہے۔