رضا باقر سے مرتضیٰ سید تک تبدیلی در تبدیلی

373

آئی ایم ایف کی طرف سے مقرر کردہ اسٹیٹ بینک کے سربراہ رضا باقر رخصت کردیے گئے ہیں اور ان کی جگہ آئی ایم ایف ہی کے مرتضیٰ سید نئے عزم اور تاگ وتاز کے ساتھ آرہے ہیں۔ فی الحال یہی تبدیلی ہے۔ اس کے سوا اگر کچھ تبدیل ہوا تو وہ محاورے ہیں۔ جس قانون کو اسٹیٹ بینک کی فروخت کہا گیا تھا اسے موجودہ حکومت نے اسٹیٹ بینک کی خود مختاری کہنا اور تسلیم کرنا شروع کیا ہے۔ موجودہ حکومت نے جانے والوں کے خلاف اپنی عوامی چارج شیٹ کا پہلا نکتہ معاشی پالیسیوں کو بنایا۔ وہ پالیسیاں جن کے باعث ملک میں ہر روز مہنگائی میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ عام آدمی کی معاشی کمر جھکتی چلی گئی۔ میڈیا نے بھی حکومت کی معاشی پالیسیوں کے تار پود بکھیرنے اور پوسٹ مارٹم کرنے میں کبھی بخل سے کام نہیں لیا۔ اس سے کچھ فائدہ ہوا یا نہیں حکومت کی ساکھ کمزور اور خراب ہوتی چلی گئی۔ میڈیا عوام کے اندر جا کر حکومت کو بددعائیں اور صلواتیں سنواتے رہے۔ یہ تو اپوزیشن نے حکومت کی مدد کرکے اسے فارغ کروادیا وگرنہ پی ٹی آئی کو آمدہ انتخابات میں اس ساری فضا کا سامنا شکست کی صورت میں برداشت کرنا پڑتا۔ اب موجودہ حکومت عوام کو بہت سے خواب دکھا کر آئی ہے۔ یہ ماضی کی حکومت کی معاشی پالیسیوں کے تمام کڑے ناقدین کا اکٹھ ہے۔ ہر کوئی اپنی اپنی معاشی بصیرت اور ویژن استعمال میں لا کر عوام کو بڑا ریلیف فراہم کرسکتا ہے۔ بصورت دیگر پاکستان کا عام آدمی یہ سمجھنے پر مجبور ہوگا کہ بیتے کل کی اپوزیشن اور آج کی حکومت محض تنقید برائے تنقید کرکے اپنی سیاست آگے بڑھا رہی تھی انہیں عوام کے مسائل سے قطعی دلچسپی نہیں تھی۔ ابھی سے موجودہ حکمران جس طرح مہنگائی کو کنٹرول کرنے کے معاملے میں عذر ہائے لنگ اپنانے کی کوشش کر رہے ہیں اسے دیکھ کر لگتا ہے کہ حالات ان کے قابومیں بھی آنے سے رہے۔
وفاقی مشیر خزانہ مفتاح اسماعیل امریکا سے آئی ایم ایف کے ساتھ کامیاب مذاکرات کے بعد لوٹ آئے ہیں۔ یہ مذاکرات اس حد تک تو کامیاب ہیں کہ آئی ایم ایف نے اپنا پروگرام بحال کرتے ہوئے قرض کی ایک اور قسط جاری کرنے پر رضا مندی ظاہر کر دی ہے۔ اس کے ساتھ ہی قوم کے لیے ان کامیاب مذاکرات میں ایک بری خبر یوں پنہاں ہے کہ آئی ایم ایف نے پٹرول اور بجلی پر دی گئی تمام سبسڈیز کو ختم کرنے کا حکم دیا ہے۔ یہ سبسڈیز گزشتہ حکومت نے عوام کے شدید دبائو اور اصرار پر دی تھیں۔ جس کے بعد مہنگائی کی ماری ہوئی قوم نے کسی حد تک سکھ کا سانس لیا تھا۔ اب آئی ایم ایف یہ تمام سبسڈیز ختم کرنے پر مصر ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ مہنگائی کا ایک اور طوفانی ریلا ایک بار پھر عوامی بستیوں کو روندتا چلا جائے گا۔ قرض کی بحالی پیشگی شرائط پر عمل درآمد سے مشروط ہے۔ آئی ایم ایف کی کڑی شرائط پہلے ہی عام پاکستانی کی چیخیں نکال رہی ہیں اور آنے والے دنوں میں اس چیخ وپکار میں کمی ہونے کا امکان کم ہی ہے۔
عمومی تاثر یہی تھا کہ پی ٹی آئی کی حکومت کسی پیشگی معاشی تیاری کے بغیر ہی میدان میں اُتری گویا کہ حکومت نے پانی میں اترنے کے بعد ہی تیراکی سیکھنا شروع کی۔ موجودہ حکومت تجربہ کار لوگوں پر مشتمل ہے اور عالمی مالیاتی ادارے سے اس کی زیادہ خفگی بھی نہیں۔ اس لیے عوام کو امید اور توقع ہے کہ موجودہ حکومت کو واضح اور نظر آنے والا ریلیف دے گی۔ ایسا نہ ہوا تو عوام کو شدید مایوسی ہوگی کیونکہ موجودہ حکمرانوں نے ماضی کے حکمرانوں پر فرد جرم کا پہلا نکتہ ہی مہنگائی اور آئی ایم ایف کی غلامی کو بنایا تھا۔ عمران خان کی حکومت کے قیام کے ساتھ ہی آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے نمائندے ملکی معیشت کو براہ راست کنٹرول کرنے قافلہ در قافلہ پاکستان پہنچتے رہے۔ ورلڈ بینک کے چنیدہ اور پسندیدہ حفیظ شیخ کا بطور مشیر خزانہ تقرر اس عمل کا نقطہ آغاز بنا۔ آئی ایم ایف کے ملازم رضا باقر اسٹیٹ بینک کے سربراہ تھے۔ یہ ’’مہمان ٹیم‘‘ اپنے ساتھ معاونین کا لائو لشکر بھی لائی تھی۔ اس کے بعد آئی ایم ایف قرض کی قسط جاری کیے تھے۔ جس کے بعد آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے ساتھ ساتھ یورپی یونین بھی اپنے معاشی رضاکاروں کو پاکستان میں کھپانے کی کوشش کرتی ہوئی نظر آرہی تھی۔ جس سے وقت ’’اِدھر بھی وہی اَدھر بھی وہی‘‘ جیسی دلچسپ صورت حال پیدا ہو کر رہ گئی تھی کہ پاکستانی کی معاشی ٹیم کے نام پر آئی ایم ایف کے پاکستانی نمائندے اپنے ہیڈ آفس کے ساتھ ہی مذاکرات کر رہے تھے۔ پاکستانی نژاد نمائندے آئی ایم ایف سے عام پاکستانی کے لیے بڑا ریلیف حاصل کرنے میں کامیاب نہیں رہے۔ اب نئی قسط عوام کے لیے کیا پیغام لاتی ہے اس کا فیصلہ بھی جلد ہوجائے گا۔ قرض کی ہر قسط کی ادائیگی زرمبادلہ کے ذخائر کو کم کرتی جا رہی ہے۔ ان حالات کا الزام اب کس پر دھرا جائے؟ خزانہ ایک طرف تھوڑا بھر جاتا ہے تو قرض کی قسط اسے واپس نیچے پہنچاتی ہے اور اس طرح معیشت مسلسل عدم استحکام کا شکار ہے۔ ماضی قریب کی حکومتوں نے پاکستان کی معیشت کو بگاڑنے اور ملک کو معاشی طور پر ان گورن ایبل بنانے میں دانستہ یا نادانستہ بھرپورکردار ادا کیا ہے۔ اس صورت حال نے آئی ایم ایف کو شیر بنا دیا ہے۔ آئی ایم ایف اپنی کڑی شرائط عائد کرکے پاکستانیوں کو ان کے ناکردہ گناہوں کی سزا دینا چاہتا ہے۔ قرض کی ایک قسط کے بعد دوسری قسط کی عادت نے ہماری حالات اس نشئی کی سی بنا ڈالی ہے جسے ایک کے بعد دوسرے سگریٹ کی طلب ستانے لگتی ہے۔ آئی ایم ایف کی متوقع قسط کو اس منصوبہ بندی سے کام لایا جائے کہ دوبارہ اس ظالم جفا جو کے در کے طواف سے چھٹکارہ مل جائے یہ پاکستانیوں کا قومی امتحان ہے۔