محرومی کی انقلابیت

551

اکثر لوگ بیس پچیس سال کی عمر میں تھوڑے بہت انقلابی اور تھوڑے بہت شاعر ہوتے ہیں۔ یعنی ان میں دنیا اور زندگی کو بدلنے کی ایک خواہش ہوتی ہے اور انہیں دنیا اور زندگی میں ایک حسن اور رومانس نظر آتا ہے۔ لیکن جیسے جیسے عمر بڑھتی ہے، ان کے لیے دنیا کا مفہوم ’’میری دنیا‘‘ اور زندگی کا مفہوم ’’میری زندگی‘‘ کے دائرے میں سکڑنا اور سمٹنا شروع ہو جاتا ہے۔ بہت سے لوگوں کے لیے زندگی اور دنیا کے مفہوم کا یہ سکڑاؤ اور سمٹاؤ نفع بخش ثابت ہوتا ہے۔ یعنی ان کی دنیا اور ان کی زندگی میں انقلاب برپا ہو جاتا ہے۔ انقلاب کا مفہوم یہاں اچھی نوکری یا خوشحال زندگی سے آگے نہیں جاتا۔ فی زمانہ اچھی نوکری یا خوشحال زندگی شادی کا پیش خیمہ ثابت ہوتی ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ بہت سے لوگ شادی کے بعد نوجوانی کے شاعرانہ طرز احساس سے بھی محروم ہو جاتے ہیں۔ گویا خوشحال زندگی اکثر لوگوں کو انقلابیت سے محروم کر دیتی ہے اور شادی، شاعری اور رومانس سے۔
دیکھا جائے تو ان امور کا تعلق کسی خاص عرصے سے ہرگز نہیں ہے۔ یادش بخیر، ایوب خان کے زمانہ میں جب کمیونسٹوں کی پکڑ دھکڑ شروع ہوئی تو عسکری صاحب نے حکومت کو مشورہ دیا کہ وہ پکڑ دھکڑ سے خواہ مخواہ بدنام ہو رہی ہے۔ کمیونسٹوں سے نمٹنے کا بہتر طریقہ یہ ہے کہ انہیں چار چھے ہزار کی نوکریوں پر لگا دیا جائے۔ ان شا اللہ ان کا سیکولرازم، کمیونزم اور ساری انقلابیت ہوا ہو جائے گی اور وہ ریاست و حکومت کے نہایت وفادار ہو جائیں گے۔ عسکری صاحب کا یہ مشورہ نہایت صائب تھا اور ایوب خان اور ان کے بعد کے دور میں اس مشورے پر کسی نہ کسی حد تک عمل بھی ہوا اور اس کے نہایت حوصلہ افزا نتائج برآمد ہوئے۔
کمیونسٹوں کا حوالہ ہم نے یہاں بلا سبب نہیں دیا۔ کسی کو کمیونزم سے اتفاق ہو یا اختلاف لیکن اس حقیقت سے بہر حال انکار نہیں کیا جا سکتا کہ مارکس کے طرز فکر نے دنیا میں انقلاب برپا کر دیا۔ ایسا انقلاب جو انسانی تاریخ کا ایک اہم حوالہ ہے، لیکن کمیونسٹ انقلاب ہر جگہ محروموں کا انقلاب تھا اور اس کی پشت پر محرومی کی انقلابیت کام کر رہی تھی۔ یہ انقلابیت کمیونسٹ انقلاب کی سب سے بڑی طاقت بھی تھی اور سب سے بڑی کمزوری بھی۔ انقلاب کی اصطلاح کو اگر سیاسی، سماجی اور اقتصادی مفہوم تک محدود کیا جائے تو دنیا کا ہر انقلاب کسی نہ کسی حوالے سے محروموں ہی کا انقلاب ہوگا اور اس انقلاب پر مخصوص اور محدود معنوں میں اعتراض نہیں کیا جا سکتا لیکن بہر حال محرومی کی انقلابیت ایک خطرناک اور افسوسناک شے ہے۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت خود کیمونسٹ انقلاب سے فراہم ہوتا ہے۔ روس کا انقلاب صرف محروموں کا انقلاب نہیں تھا بلکہ اس کی پشت پر محرومی کی انقلابیت کام کر رہی تھی جو اس انقلاب پر غالب آتی چلی گئی۔ نتیجہ یہ کہ ظلم باقی رہا، صرف اس کا مفہوم بدل گیا محرومی باقی رہی، صرف اس کے معنی بدل گئے۔ ظالم موجود رہے، صرف ان کے نام تبدیل ہو گئے۔ ظلم بورژوا طبقے کا ہو یا پرولتاریوں کا، بہر حال ظلم ہوتا ہے لیکن اس طرح کی باتیں اور اس طرح کے حقائق انقلاب کے زورا زوری اور شور شرابے میں دب کر رہ جاتے ہیں، روس میں بھی یہی ہوا۔
دنیا کو انقلاب اور انقلابیت کا تصور کمیونزم یا سوشلزم کی دین نہیں ہے کیونکہ حاضر و موجود سے بیزاری اور ایک نئی دنیا کا خواب انسان ہمیشہ سے دیکھتا آیا ہے لیکن یہ حقیقت عیاں ہے کہ کمیونزم اور سوشلزم نے انقلاب کے تصور کو ایک منظم تصور کی صورت دے کر اسے عالمگیریت سے ہمکنار کیا۔ اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ انہوں نے محرومی کی انقلابیت کو ایک عمومی طرز احساس بنا کر رکھ دیا۔ نتیجہ یہ ہے کہ کمیونزم اسٹالن گراڈ میں دفن ہو چکا ہے۔ لیکن محرومی کی انقلابیت دنیا بھر میں زندہ ہے اور اپنا کام کر رہی ہے۔
اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ انسان ذاتی تجربے ہی سے دوسروں کے تجربات کو سمجھتا ہے، لیکن اس بات سے بھی انکار کی کوئی گنجائش نہیں کہ ذاتی تجربے کی اسیری فرد اور اجتماع کے لیے نہایت ضروری ہے۔ محرومی کی انقلابیت اس کی ایک بہت اچھی مثال ہے۔
محرومی کی انقلابیت بالعموم انفرادی محرومی کے احساس کی بنیاد پر بروئے کار آتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایسے فرد کی محرومی جیسے ہی دور ہوتی ہے، اس کی انقلابیت بھی ہوا ہو جاتی ہے، یہاں کمیونسٹ اور غیر کمیونسٹ کی کوئی تخصیص نہیں۔ ہم نے بہت سے اسلام پسندوں کو اپنی آنکھوں کے سامنے دنیا پرست بنتے دیکھا ہے۔ ایسے لوگوں کی زندگی ؎
اپنی آنکھوں کو ہی بدل ڈالا
جب میں دنیا نہ کر سکا تبدیل
کی تفسیر ہوتی ہے۔ لیکن فی زمانہ محرومی کے احساس کا مسئلہ بہت اہم ہو گیا ہے اور اس کو ذرا گہرائی میں سمجھنے کی ضرورت ہے۔ کچھ لوگوں کے لیے محرومی کا مفہوم ایک خوشحال زندگی سے محرومی تک محدود ہوتا ہے اور ان کی یہ محرومی جیسے ہی دور ہوتی ہے، ان کے انقلابی خیالات یا Radical فکر چار دن میں تحلیل ہو جاتی ہے۔ لیکن کچھ لوگ بہت کچھ حاصل کرنے کے باوجود محروم ہی رہتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ محرومی کا احساس ان کی نفسیات میں رچ بس جاتا ہے۔ پھر یہ احساس کہیں لسانی اور گروہی اصطلاحوں میں ظاہر ہوتا ہے اور کہیں طبقاتی اور صوبائی اور براعظمی تناظر میں اپنا اظہار کرتا ہے۔ لیکن ظاہر ہے کہ ایسے کسی بھی طرز خیال کی پشت پر کوئی حقیقی انقلابیت موجود نہیں ہوتی۔
بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جن پر زندگی بہت مہربان نہیں ہوتی چنانچہ وہ محرومی کی آگ میں جھلستے رہتے ہیں اور ان کی انقلابیت معاشرے سے انتقام کا خواب دیکھنے لگتی ہے۔ ایسی انقلابیت بہت سے افراد کے درمیان قدر مشترک بن جاتی ہے تو پھر خالی خولی بغاوت جنم لیتی ہے جو ایک تخریب سے دوسری تخریب کی طرف سفر سے عبارت ہوتی ہے۔ بغاوت اور انقلاب کا بنیادی فرق ہی یہ ہے کہ انقلاب ایک بہت بڑی تخریب سے ایک بہت بڑی تعمیر کی طرف سفر کرتا ہے، لیکن بغاوت ایک تخریب سے اور دوسری تخریب تک کود نے پھاند نے کے عمل کے سوا کچھ نہیں ہوتی۔
عہد جدید کی مجموعی فضا ایسی ہے کہ محرومی کی نفسیات اور محرومی کی انقلابیت سے بچنا مشکل ہے۔ یہ نفسیات اور یہ انقلابیت مذہب تک کو آسانی سے بروئے کار لے آتی ہے، لیکن اس سے نجات کا ارادہ اس سے بلند ہونے کا واحد راستہ بھی صرف مذہبی طرز احساس ہی ہے۔ ایک سچا مذہبی طرز احساس، ایسا طرز احساس جو انسان کو عمر اور تجربے کی اسیری سے نجات دلا دے جو فرد کو ذاتی خواہشات اور اس کی تکمیل یا عدم تکمیل کے اثرات سے بلند کر دے۔ جب تک ایسا طرز احساس عام نہیں ہو گا ، بے شمار نو جوانوں کی انقلابیت میٹھے برس کے خاتمے اور خوشحال زندگی کے آغاز کے بعد ختم ہوتی رہے گی اور اگر یہ انقلابیت باقی بھی رہے گی تو اس پر کسی نہ کسی قسم کی محرومی کے سانے پڑتے رہیں گے۔