سْرتال پر الزام نہ دھرو

409

وزیر ِ اعظم میاں شہباز شریف قوم کو یہ باور کرانے کا تہیہ کر چکے ہیں کہ ملک معاشی طور پر تباہی کے دھانے پر پہنچ چکا ہے۔ موصوف اس امکان کا اظہار بھی کررہے ہیں کہ قرضوں کا پہاڑ قوم کو پاش پاش بھی کر سکتا ہے مگر عملاً قرضوں سے نجات کے لیے کچھ کرتے دکھائی نہیں دے رہے ہیں اور قوم اْن کی فکر مندی دیکھ دیکھ کر یہ سوچ رہی ہے کہ جون پور کے قاضی کی طرح قوم کے غم میں دْبلے کیوں ہو رہے ہیں؟ عملی اقدامات سے کیوں گْریز کر رہے ہیں اگر عشرت گہہ خسروں کے مکینوں سے عشرت گاہیں خالی کرا لی جائیں تو خوشحالی قوم کا مقدر بن سکتی ہے۔ ملک کی معاشی صورتحال بہت کمزور ہے مگر اس کمزوری کا علاج اشیاء خور و نوش کی مہنگائی سے نہیں ہو سکتا۔ حالانکہ حکومت کو اس حقیقت کا ادراک ہے کہ جب تک افسرانِ بالا کو دی جانے والی ناجائز سہولتیں اور مراعات ختم نہیں کی جاتیں معیشت اپنے پاؤں پر کھڑی نہیں ہوسکتی۔

وطن ِ عزیز کا کوئی بھی اداراہ ایسا نہیں جس کا سربراہ اپنے ادارے کی کارکردگی سے مطمئن ہو۔ ہر آرمی چیف نے اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے کہ رینجرز پاکستان کی اوّلین دفاعی لائن ہے۔ مگر سب نے اْسے لائن لگا رکھا ہے۔ رینجرز کے جوان پنشن کے بعد دربدر کی ٹھوکریں کھاتے ہیں جبکہ فوجی جوانوں کے لیے ہر محکمے میں ملازمت کا کوٹا مختص ہے۔ اسی طرح پاکستان کے ہر چیف جسٹس نے اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے کہ وطن ِ عزیز کا نظام ِ عدل انصاف کی فراہمی کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان اعترافات کے بعد سربراہان اپنے اداروں کی اصلاح کیوں نہیں کرتے؟ چیف جسٹس پاکستان عزت مآب عیسیٰ فائز نے اس عزم کا اعتراف کیا تھا کہ نظامِ عدل میں ایک شفافیت لائیں گے گویا اعتراف کر لیا گیا ہے کہ وطن ِ عزیز کا نظامِ عدل شفاف نہیں۔

کسی کے خلاف جھوٹا مقدمہ دائر کرنا قانونی جرم ہے مگر وطن ِ عزیز میں عدالتیں اس جرم کی پُشت پناہی کرتی ہیں جعل سازی پر مبنی مقدمات عدم ثبوت کی بنیاد پر سول کورٹ خارج کر دے تو سیشن کورٹ اس کی اپیل منظور کر لیتی ہے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ ہائی کورٹ حتیٰ کہ عدالت ِ عظمیٰ بھی ان کے سر پر دست ِ شفقت رکھ دیتی ہے۔

یادش بخیر چیف جسٹس پاکستان چودھری افتخار نے ایک بزر گ خاتون کے مقدمے کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے تھے کہ سول کورٹ، سیشن کورٹ اور ہائی کورٹ عدم ثبوت کی بنیاد پر زیر ِ نظر مقدمہ خارج کر چکی ہے تو عدالت ِ عظمیٰ میں کیوں دائر کیا گیا؟ اْنہوں نے نا صرف مقدمہ خارج کیا بلکہ مدعی اور اْس کے وکیل پر جْرمانہ بھی عائد کر دیا تھا اگر عدالت ِ عظمیٰ ہائی کورٹ، سیشن کورٹ اس مقدمے کو روایت بنا لیتی تو جعل سازی پر مبنی مقدمات عدالت کا وقت ضائع کرنے کا سبب نہ بنتی۔

عزت مآب چیف جسٹس عیسیٰ فائز کا کہنا ہے کہ وہ نظامِ عدل میں شفافیت کے لیے فوری اور ضروری اصلاحات لائیں گے جو سمجھ سے بالاتر ہے۔ کیونکہ جب تک جعلی مقدمات کو سماعت اور اپیل در اپیل کے ابلیسی چکر سے عوام کو نجات نہیں دلائی جاتی نظامِ عدل کی شفافیت مشکوک ہی رہے گی۔ یہ جو عدالتوں میں مقدمات کے انبار لگے ہوئے ہیں اس کی ایک بڑی وجہ اپیل در اپیل کا یہ ہی شیطانی چکر ہے۔

اس حقیقت سے چیف جسٹس عیسیٰ فائز بے خبر نہیں ہوسکتے کہ ہائی کورٹ میں مقدمات کی طوالت اور انصاف میں تاخیر کی بنیادی وجہ لیفٹ اوور کا ہتھوڑا ہے۔ جو جسٹس صاحبان ہر پیشی پر سائلین کے سر پر دے مارتے ہیں۔ جب تک جعلسازی پر مبنی مقدمات کی سماعت پر پابندی نہیں لگائی جاتی اور انصاف کے ہتھوڑے کو نہیں دی جاتی انصاف کی فراہمی اور شفافیت ممکن نہیں۔

سنو اپنا اپنا کام کریں، سْرتال پر کیوں الزام دھریں
میاں اپنی بانسریا کوئی راگ بھری کوئی آگ بھری