ہند و پاک کے مماثل سیاسی مناظر

408

آخری حصہ
(ممبئی)
دونوں ملکوں کی سیاسی معیشت میں بنیادی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔ گلوبلائزیشن نئی طرح کی سرمایہ داری کا تقاضا کرتا ہے اور بائیں بازو کی پارٹیاں اس طرح کے نظام کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ہندوستان میں کمیونسٹ پارٹیوں کے تنزل اور اب کانگریس کی شکست فاش سے یہ حقیقت آشکار ہوگئی ہے۔ اس دوران ہند و پاک کے سیاسی و معاشی حالات نے کئی اقسام کے اُتار چڑھاؤ کا سامنا کیا ہے۔ کبھی پاکستان کو آمریت کے سایوں نے اپنے گھیرے میں لیے رکھا تو کبھی جمہوریت کو پھلنے پھولنے کا بھرپور موقع ملا۔
5۔ میڈیا کی آزادی اور شہری آزادی: میڈیا کی آزادی اور شہری آزادی دونوں اہم اصول ہیں۔ میڈیا کی آزادی معنوں میں اطلاعات کو آزادانہ طریقے سے بیان کرنے اور معلومات کی رسائی فراہم کرنے کو شامل کرتی ہے، میڈیا کی آزادی کے ذریعے لوگوں کو اہم معلومات حاصل ہوتی ہیں اور وہ اپنی رائے کو بیان کرتے ہیں۔ جب کہ شہری آزادی میں لوگوں کی حقوق اور آزادیوں کا احترام شامل ہوتا ہے۔ شہری آزادی کے ذریعے ان کو اپنی حقوق کا استحقاق ہوتا ہے اور وہ حکومت کی باتوں کو پوچھ سکتے ہیں۔ ان دونوں کا تعلق بہت قوی ہوتا ہے، جب تک کہ ایک معقول اور خودمختار معاشرت میں میڈیا اور شہری آزادی کی حفاظت ہو۔
دونوں ممالک میڈیا کی آزادی، سنسر شپ، اور شہری آزادیوں پر پابندیوں سے متعلق مسائل سے دوچار ہیں۔ باخبر عوامی گفتگو کو فروغ دینے اور حکومتوں کو جوابدہ ٹھیرانے کے لیے پریس کی آزادی ضروری ہے، اس کے باوجود صحافیوں کو ہندوستان اور پاکستان دونوں میں دھمکیوں، ہراساں کیے جانے اور قانونی چیلنجوں کا سامنا ہے۔
ہندوستان کے تمام صوبوں میں انتخابات کی تاریخوں کا اعلان کر دیا گیا ہے جس کے نتیجے میں سیاسی سر گرمی شباب پر ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ہندوستان میں ہونے والے تمام صوبوں کے انتخابات اور کیا کیا رنگ دکھائیں گے اور پاکستان میں شروع ہوچکی سیاسی سر گرمی کیا رنگ لائے گی۔
ہیں کواب کچھ نظر آتے ہیں کچھ
دیتے ہیں دھوکا یہ بازی گر کْھلا
آج ہند و پاک کا سیاسی میدان موقع پرستی، نا مناسب گٹھ جوڑ اور قلیل مدتی فوائد کے حصول کے لیے بنیادی اصولوں اور نظریات کے مسلسل زوال سے بھرا ہوا ہے۔ نتیجہ جو بھی ہو لیکن اس سیاست کے منظر نامے پر ایک نقشہ ابھر کر سامنے آئے گا جو دونوں ملکوں کی مرکزی حکومت پر براہ راست اثر انداز ہوگا۔ ان تمام سیاسی انتشار سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ سیاست بے رحمی، خود غرضی اور مفاد پرستی کا کھیل ہے۔ اس میں دوستی اور خونی رشتوں کا بھی لحاظ نہیں رکھا جاتا۔ باپ، بیٹا اور بھائی ایک دوسرے کے مقابلے پر کھڑا ہونے میں عار محسوس نہیں کرتے۔ کیوں کہ طاقت اور اقتدار کا نشہ آنکھوں پر پٹی باندھ دیتا ہے۔ ایک مقبول سیاستدان ہر وقت موقع کی تاک میں رہتا ہے کہ کب اس کا مخالف غلطی کا مرتکب ہو اور وہ فائدہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے۔
علامہ محمد اقبال اپنی نظم کے شعر میں فرماتے ہیں ’’جہاں تک اس دنیا کے سیاستدانوں کا احوال ہے تو انہوں نے جمہوریت کے نام پر ہر وہ کام شروع کر دیا ہے جو بالعموم مجھ سے منسوب کیا جاتا تھا۔ وہ قدم قدم پر عوام کو دھوکہ دے رہے ہیں اور اپنے ذاتی مفادات کے لیے ہر ممکن فریب کاری سے کام لے رہے ہیں۔ تو ہی بتا کہ اب اس دنیا میں میری کیا ضرورت باقی رہ جاتی ہے کہ میری جگہ تو ان لوگوں نے لے لی ہے‘‘۔
جمہور کے اِبلیس ہیں اربابِ سیاست
باقی نہیں اب میری ضرورت تہِ افلاک!