بزرگوں کے خواب اور پاکستان

477

یہ 1988 کی بات ہے ملک میں عام انتخابات کی مہم چل رہی تھی کراچی شہر میں اس سے قبل کے بلدیاتی انتخابات میں ایم کیو ایم واضح اکثریت سے کامیاب ہو چکی تھی۔ اس عام انتخابات میں ایم کیو ایم کی سیاسی پوزیشن بہت مستحکم تھی اس لیے کہ بلدیاتی انتخاب میں بھرپور کامیابی نے ان کے حوصلوں کو بلند کردیا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بلدیاتی انتخاب میں جو قومی جماعتیں حصہ لے رہی تھیں انہوں نے ایم کیو ایم کے انتخاب میں حصہ لینے کو کوئی اہمیت نہیں دی وہ سمجھتے تھے کہ یہ کالج اور یونیورسٹی کے کچھ جوشیلے نوجوان ہیں، یہ پندرہ بیس سیٹیں لے لیں گے کراچی جو تعلیم یافتہ لوگوں کا شہر ہے وہ اپنے ووٹ تو قومی جماعتوں کو دیں گے۔ لیکن پھر بلدیاتی انتخابات کے جو نتائج آئے اس نے ایم کیو ایم سمیت تمام سیاسی جماعتوں کے چودہ طبق روشن کردیے۔ ایم کیو ایم سمیت اس لیے کہا کے خود ایم کیو ایم کے لوگوں کو یہ توقع نہیں تھی کہ وہ اتنی بھاری اکثریت سے جیت جائیں گے۔ میں اب بھی یہ سمجھتا ہوں کہ اس وقت ایم کیو ایم کو ووٹ ایم کیو ایم کی محبت میں یا مہاجر کاز پر نہیں ملے بلکہ یہ کراچی کے لوگوں کا وہ احساس محرومی تھا جو 1973 سے چلا آرہا تھا کہ کوٹا سسٹم کی وجہ سے کراچی کے نوجوانوں کے لیے تعلیمی اداروں میں داخلے اور سرکاری دفاتر میں ملازمتوں کے دروازے بند ہوچکے تھے۔ کراچی کے شہریوں کو ایم کیو ایم میں امید کی کرن نظر آئی اور اس طرح انہوں نے شہر میں ایک خاموش انقلاب برپا کردیا۔ پھر اگلے ہی سال عام انتخاب کا مرحلہ آیا تو اس میں بھی ایم کیو ایم پوری تیاری سے میدان میں آئی اس لیے کہ ان کو بلدیاتی انتخابات کے نتائج سے ایک اعتماد مل گیا تھا۔
اس انتخاب میں بھی ہمارے بعض ساتھی کہہ رہے تھے کہ بلدیاتی انتخاب میں شہر کے مسائل پر بات ہوتی ہے اس لیے ایم کیو ایم کو لوگوں نے ووٹ دیے ہیں یہ تو قومی انتخاب ہیں اس میں قومی مسائل کو ایڈریس کیا جاتا ہے اس میں تو کراچی کے با شعور عوام تو قومی جماعتوں کو ووٹ دیں گے یہ تو وقتی بادل ہیں جو برس کر نکل جائیں گے لیکن ایسا تبصرہ کرنے والوں کو شاید معلوم نہیں تھا ان بادلوں کے اندر ایک عذاب ہے جو کراچی پر مسلط ہونے والا ہے۔ کراچی جو کسی زمانے میں دینی جماعتوں کا شہر کہلاتا تھا 88 کے عام انتخاب میں کراچی کی یہ دلکش روایت ٹوٹ گئی اور کراچی کی سیاست سے دین کو بے دخل کردیا گیا، پھر کیا ہوا پھر وہی کچھ ہوا جو علامہ اقبال اپنے ایک مصرعے میں کہہ گئے ہیں۔
جدا ہو جو دین سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی
پھر ہم نے کئی دہائیوں تک اس چنگیزیت کو اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ ایم کیو ایم نے سیاست کا کلچر ہی تبدیل کردیا۔ تمام سیاسی جماعتوں کے جلسے میں ایک نعرہ مشترک تھا وہ تھا نعرہ تکبیر۔ اللہ ہو اکبر ایم کیو ایم نے اس کی جگہ نعرۂ مہاجر۔ جیے مہاجر کردیا آپس میں ملاقات میں السلام علیکم۔ وعلیکم السلام کہنے کے بجائے ایک فرد ہاتھ ملاتے وقت جیے مہاجر کہہ گا دوسرا فرد بھی جواب میں ہاتھ ملاتے ہوئے جیے مہاجر ہی کہہ گا۔ تمام سیاسی جماعتوں کے جلسوں میں مغرب کی نماز میں جلسہ روک دیا جاتا تاکہ لوگ نماز پڑھ لیں یا پھر جلسے بعد نماز مغرب ہی شروع ہوتے ایم کیو ایم کا ہمارے محلے میں عصر بعد جلسہ شروع ہوا مغرب کی اذان ہوئی میں نماز کو جارہا تھا قریب ہی جلسے سے الطاف حسین خطاب کررہے تھے۔ جلسے سے کچھ آوازیں بلند ہوئیں اذان اذان الطاف حسین نے کہا یہ حقوق کی جنگ ہے جلسہ نہیں رُکے گا جسے نماز پڑھنا ہے وہ چلا جائے۔ ان ہی دنوں ایم کیو ایم کی موبائل پبلسٹی میں ایک بات پرزور انداز میں کہی جارہی تھی۔ ’’پاکستان کسی کے خواب کی تعبیر نہیں۔ پاکستان کسی کے باپ کی جاگیر نہیں‘‘۔ یہ سن کر ٹھٹک گیا ہم تو پچپن سے پرائمری سے سیکنڈری تک اور اسکول سے کالج اور یونیورسٹی تک یہ بات سنتے چلے آرہے تھے کہ علامہ اقبال نے پاکستان کا خواب دیکھا تھا اور قائد اعظم نے اسے عملی جامہ پہنایا کسی دانشور نے کیا خوبصورت بات کہا ہے کہ خواب وہ نہیں جو سوتے میں دیکھے جاتے ہیں بلکہ خواب وہ ہیں جس کی خاطر سو یانہ جا سکے۔ علامہ نے ایسا ہی خواب دیکھا تھا۔
اب خوابوں کی بات چل پڑی ہے تو اسی پوائنٹ کو آگے بڑھاتے ہیں یہی ہمارا موضوع بھی ہے۔ کئی برس قبل میں نے ملک کے معروف دانشور پروفیسر حسنین کاظمی کے کچھ کالم پڑھے تھے، جس میں انہوں نے برصغیر کی تقسیم سے قبل کے کچھ واقعات بیان کیے تھے اسی میں ایک واقعہ مولانا حسرت موہانی کے حوالے سے تھا کہ وہ اپنے شہر سے دہلی مسلم لیگ کے کسی اجلاس میں شرکت کے لیے جارہے تھے۔ اس وقت وہ مسلم لیگ میں نہیں تھے دوران سفر ٹرین میں کسی نے پوچھا کہ مولانا آپ کہاں جارہے ہیں، مولانا حسرت موہانی نے کہا کہ مسلم لیگ میں شامل ہونے کے لیے جارہا ہوں سوال کرنے والے نے پھر پوچھا کہ آپ تو مسلم لیگ کی مخالفت کرتے رہے ہیں اب کیوں شامل ہورہے ہیں مولانا نے جواب دے مجھے خواب میں نبی اکرمؐ نے کہا ہے کہ تم پاکستان کے لیے کام کرو اس لیے میں تحریک پاکستان کی جدجہد میںشرکت کے لیے جارہا ہوں اس کے بعد مولانا حسرت موہانی مسلم لیگ کہ ہر اجلاس میں شریک ہوتے تھے۔ اسی مضمون میں پھر یہ بات بھی لکھی تھی 1946 میں مولانا نے مسلم لیگ کو خیرباد کہہ دیا تھا۔ چھوڑنے کی وجہ یہ بتائی گئی مسلم لیگ کے اہم اجلاس میں مولانا حسرت موہانی نے یہ تجویز دی کہ ہمیں ابھی سے پاکستان کا اسلامی دستور بنا لینا چاہیے تاکہ جس دن سے پاکستان قائم ہو اسی دن سے دستور کا نفاذ ہو جائے اجلاس میں شرکاء کی اکثریت نے اس تجویز کی مخالفت کی اور کہا کہ ابھی ہم کو تشکیل پاکستان کی جدجہد میں ساری توانائیاں صرف کرنا چاہیے جب ملک بن جائے گا تو پھر دستور تو بناہی لیں گے۔ مولانا یہ کہتے ہوئے بیٹھ گئے پھر آپ دستور نہیں بنا سکیں گے اس کے بعد مسلم لیگ چھوڑ دی۔ کاظمی صاحب لکھتے ہیں کہ اگر مولانا حسرت موہانی کی تجویز مان لی جاتی تو قیام پاکستان کے بعد ہم بہت سارے سانحات سے بچ جاتے۔
’’قرارداد مقاصد اور مولانا شبیر احمد عثمانی‘‘ کے عنوان سے وجاہت مسعود نے سلسلہ وار کالم لکھا ہے بدھ 15مئی کی اشاعت میں وہ لکھتے ہیں۔ ’’علامہ شبیر احمد عثمانی نے قائد اعظم کی وفات کے بعد بتایا کہ قائد مرحوم نے انہیں ایک نشست میں بتایا تھا کہ وہ لندن میں خود اختیار کردہ جلا وطنی کو سرور کائنات ؐ کے حکم پر ختم کرکے واپس آئے تھے جو انہیں رسول پاکؐ نے ایک خواب میں دیا تھا۔ خواب کی تفصیل بیان کرتے ہوئے قائد نے بتایا کہ رسول اللہ ؐ کا حکم نہایت واضح تھا محمد علی واپس جائو اور وہاں کے مسلمانوں کی قیادت کرو‘‘۔ قائد اعظم نے یہ خواب سنا کر تاکید کی تھی اس واقع کا ذکر ان کی حیات میں کسی سے نہ کیا جائے۔ (بحوالہ ڈاکٹر صفدر محمود روزنامہ جنگ 29ستمبر 2011ء)
ڈاکٹرکائسلر (ان کا تفصیلی تعارف مضمون میں موجود ہے) اپنے لکچرز میں ایک واقعہ بار بار دہراتے ہیں کہ مولانا شبیر احمد عثمانی سے سوال کیا گیا کہ آپ نے قائد اعظم کی نماز جنازہ کیوں پڑھائی؟ تو انہوں نے جواب دیا ’’قائد اعظم کا جب انتقال ہوا تو میں نے رات رسول اکرمؐ کی زیارت کی۔ رسول اکرمؐ قائد اعظم کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہتے ہیں یہ میرا مجاہد ہے‘‘۔ مولانا شبیر احمد عثمانی نے 12ستمبر 1948 کی شام قائد اعظم محمد علی جناح کا جنازہ پڑھایا۔