رمضان میں عمرہ

660

اس ماہ مبارک میں یوں تو پوری دنیا میں اللہ تعالیٰ کی رحمتوں اور برکتوں کا نزول شروع ہو جاتا ہے اور ہر طرف ایک روحانی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ مسلمان کسی بھی ملک میں ہوں ان میں روزے اور رات کو تراویح کی اور آخری عشرے میں اللہ تعالیٰ کے محبوب بندے اعتکاف کی لذتوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں، ہر مسلمان پر ایک خوشی کی کیفیت ہوتی ہے، لیکن حرم بیت اللہ اور حرم مسجد نبوی اور روضہ اقدسؐ پر تو رمضان المبارک کی برکتوں اور رحمتوں کی کیفیت اور مشاہدے کا اندازہ وہی کرسکتا ہے جس کو اللہ تعالیٰ یہ سعادت نصیب فرمائے۔ اس ماہ مبارک میں جو عبادتیں خاص طور پر انجام دینی چاہیے ان میں ایک عمرہ بھی ہے۔ ایک روایت میں اس طرح آتا ہے کہ رمضان میں عمرہ کرنا، حج کے برابر ہے یا (فرمایا، راوی کو شک ہے) میرے ساتھ حج کر نے کے برابر ہے۔ (بخاری و مسلم)
عمرے کے معنی زیارت کے ہیں اور شرعی معنی میں میقات سے احرام باندھ کر خانہ کعبہ کا طواف کرنے اور صفا و مروہ کے درمیان سعی کرنے کے ہیں۔ عمرے کو حج اصغر بھی کہتے ہیں۔ صاحب استطاعت اور اہل ثروت کے لیے عمر بھر میں ایک مرتبہ عمرہ ادا کرنا سنت موکدہ ہے اور بعض علما کے نزدیک واجب ہے۔ حدیث پاک میں عمرے کی بڑی فضیلت آتی ہے، خصوصاً رمضان الباررک میں عمرہ ادا کرنے کی بڑی فضیلت ہے۔
ایک اور روایت میں اس طرح آتا ہے کہ حج و عمرہ پے در پے کیا کرو کیونکہ یہ تنگ دستی اور گناہوں کو اس طرح دور کر دیتے ہیں جیسے بھٹی لوہے، سونے اور چاندی کے میل کو دور کر دیتی ہے۔ (ترمذی)
اللہ تعالیٰ سے انسان کی محبت کا تقاضا یہ ہے کہ وہ اس سے قریب سے قریب تر ہو حالانکہ اللہ تعالیٰ اس سے بلند و برتر ہے کہ وہ اس دوری و نزدیکی کے مادی نظام کا پابند ہو اس لیے اس نے ہماری مادیت کی رعایت میں دنیا کے اندر ہمیں اپنا ایک گھر بتا دیا کہ تم یہاں آؤ گے تو گویا میرے گھر آؤ گے محبوب کے گھر پہنچ کر بھی ایک عاشق کا دل بے چین ہو جاتا ہے کہ میں محبوب کی چوکھٹ پر پیشانی رگڑوں اور اپنے دل کی آرزوئیں پوری کروں، اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایک چوکھٹ اس جذبے کی تسکین کے لیے بھی تجویز فرما دی کہ ہم مقام ابراہیم پر نماز کے ذریعے اپنی جبین نیاز اس کے سامنے رکھ سکیں اور ملتزم میں اس کے دامن سے چمٹ کر التجائیں کریں۔
ایک اور روایت میں عمرے کے متعلق اس طرح آتا ہے کہ ایک عمرہ اپنے سے پہلے عمرے کی درمیانی مدت (کے گناہوں) کا کفارہ ہے۔ ( بخاری و مسلم)
کیونکہ رمضان میں عمرہ کرنے کا ثواب حج کے برابر ملتا ہے اس لیے اس مبارک مہینے میں اگر کسی کو اس کی استطاعت حاصل ہو تو عمرہ ضرور کرنا چاہیے تاکہ حج کے برابر یا آپؐ کے ساتھ حج کرنے کے برابر اجر و ثواب سے محرومی نہ ہو اس کے ساتھ یہ بھی ذہن میں واضح کر لینا چاہیے کہ اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس سے فریضہ حج ادا ہو جائے گا اور اس کے بعد اس کی ضرورت نہیں رہے گی۔
ایک اور روایت میں اس طرح آتا ہے کہ جو لوگ حج و عمرہ کے سفر میں ہوں وہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حاضر ہونے والے افراد ہیں۔ (جو بطور مہمان کے شمار ہوتے ہیں) یہ لوگ اللہ تعالیٰ سے دعا کریں تو قبول فرمائے اور مغفرت طلب کریں تو ان کی مغفرت فرما دے۔ (ابن ماجہ)