فضائلِ صدقات

7446

سیدنا ابوامامہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا: اے ابن آدم! اگر تو وہ مال، جو زیادہ ہے خرچ کرے تو یہ تیرے لیے بہتر ہے۔ سب سے پہلے اپنے اہل و عیال پر خرچ کر۔ اور اگر روک رکھے گا تو یہ تیرے لیے برا ہے۔ بقدر ضرورت تجھ کو ملامت نہیں۔ (مسلم) دوسری روایت یہ ہے کہ ایک شخص نے کہا: اے رسول خدا! کون سا صدقہ بہت بڑا اجر رکھتا ہے؟ فرمایا: تو صدقہ دے، جب کہ تو تندرست و بخیل ہو، فقر سے ڈرتا اور غنا کی امیدرکھتا ہو، اور اتنی دیر نہ کر کہ جان گلے میں پہنچے تب تو کہے کہ فلاں کو اتنا اور فلاں کو اتنا۔ وہ تو اس کا ہو ہی چکا ہے۔ (متفق علیہ) سیدنا ابوذرؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہؐ کعبے کے سائے میں بیٹھے تھے۔ میں آیا‘ مجھے دیکھ کر فرمایا: قسم ہے رب کعبہ کی! وہی زیاں کار ہیں۔ میں نے کہا: میرے ماں باپ آپؐ پر فدا ہوں، وہ کون ہیں؟ فرمایا: یہی بڑے مال دار، مگر جس نے دیا دائیں اور بائیں سے، سامنے اور پیچھے سے۔ اور ایسے لوگ تھوڑے ہیں۔ (متفق علیہ)
سیدنا ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ سخی قریب ہے اللہ سے، قریب ہے جنت سے، قریب ہے لوگوں سے، دور ہے آگ سے۔ بخیل دور ہے اللہ سے، دور ہے جنت سے، دور ہے لوگوں سے، قریب ہے آگ سے۔ البتہ جاہل سخی دوست تر ہے اللہ کو عابد بخیل سے۔ (ترمذی) سیدنا ابوسعیدؓ کی روایت میں ہے کہ اگر آدمی اپنی حیات میں ایک درہم صدقہ دے تو یہ بہتر ہے اس سے کہ 100 درہم صدقہ دے موت کے وقت۔ (ابوداؤد)
سیدنا ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ آدمی میں بدترین اشیا شح ہالع اور جبن خالع ہیں، یعنی شدید بخل اور سخت کم ہمتی (ابوداؤد)۔ حدیث ابوہریرہؓ میں ذکر ہے کہ ایک شخص نے اپنا صدقہ ایک بار چور کو، دوسری بار زانیہ کو، اور تیسری بار آسودہ آدمی کو ناواقفیت سے دے دیا۔ جب لوگوں میں اس بات کا چرچا ہوا تو، اس سے کہا گیا کہ تیرا صدقہ چور پر ہوا شاید وہ چوری سے اور زانیہ زنا سے باز رہے، اور غنی عبرت پکڑے اور خود بھی خرچ کرے۔ (متفق علیہ) معلوم ہوا کہ جو صدقہ اخلاص نیت سے دیا جاتا ہے اگر غلطی سے وہ کسی غیر مستحق کو پہنچتا ہے تو بھی متصدق کو اجر ملتا ہے اور غیر مستحق کے حق میں بھی کبھی نافع ہو جاتا ہے۔
ایک طویل حدیث میں ابوہریرہؓ ایک کوڑھی، گنجے اور اندھے کا قصہ بیان کرتے ہیں جن کا تعلق بنی اسرائیل سے تھا۔ اللہ نے ان کا امتحان لیا۔ ان کی خواہش کے مطابق کوڑھی کو اچھا کر کے خوب صورت خوش رنگ بنا دیا گیا اور اس کو اونٹ یا گائے عطا کی گئی۔ اسی طرح گنجے کو عمدہ بال اور گائے بخشی اور اندھے کو آنکھیں اور بکریاں دیں یہاں تک کہ ہر ایک کے مال سے ایک جنگل بھر گیا۔ پھر وہی فرشتہ جس نے اپنا ہاتھ ان پر پھیرا تھا اور یہ اچھے ہو گئے تھے ان میں سے ہر ایک کے پاس شکل اول میں آکر سائل ہوا اور کہا جس اللہ نے تجھ کو ایسا کر دیا ہے اس کے نام پر کچھ مجھ کو بھی دے کہ میں مسکین اور مسافر ہوں اور گھر تک نہیں پہنچ سکتا۔ کوڑھی نے کہا حقوق بہت ہیں۔ اس نے کہا میں تجھ کو پہچانتا ہوں تو ابرص اور فقیر تھا، اللہ نے تجھ کو یہ مال دیا۔ کہا: یہ مال تو پشت ہا پشت سے مجھ کو ملاہے۔ اس نے کہا: اگر تو جھوٹا ہے تو اللہ تجھ کو پھر ویسا ہی کر دے۔ اسی طرح گنجے سے برتائوہوا اور اس کو بھی بددعا دی۔ پھر اندھے کے پاس آکر وہی گفتگو کی۔ اس نے کہا :میں اندھا تھا، اللہ نے مجھ کو بینا کر دیا، تو جتنا چاہے لے جا۔ آج میں تجھ کو کسی شے سے نہ روکوں گا۔ فرشتے نے کہا تو اپنا مال اپنے پاس رکھ: فانما ابتلیتم فقد رضی عنک وسخط علی صاحبیک (متفق علیہ)‘یعنی تمھارا امتحان ہوا۔ تجھ سے اللہ راضی رہا اور ان دونوں سے خفا ہوا۔
سیدہ اْمِ مجیدؓ نے نبیؐ سے کہا کہ مسکین میرے دروازے پر کھڑا ہوتا ہے۔ میں شرم کرتی ہوں کہ گھر میں اس کے دینے کو کچھ نہیں پاتی۔ فرمایا: اس کے ہاتھ میں دے اگرچہ ایک سم سوختہ ہو۔ (مسند احمد) معلوم ہوا کہ گدا کو خالی ہاتھ نہ پھیرے۔ کچھ نہ کچھ دے دے اگرچہ بے حقیقت و حقیر و یسیر چیز ہو۔ سلف ہر روز صدقہ دیتے تھے، اگرچہ ایک گرہ پیاز کی یا ایک ڈلی نمک کی ہوتی۔ کوئی دن صدقہ سے خالی نہ چھوڑتے۔ سیدنا ابن عباسؓ سے روایت ہے: کیا میں تم کو بدتر درجے والے لوگوں کی خبر نہ دوں؟ کہا: ہاں۔ فرمایا: جس سے اللہ کا نام لے کر مانگیں اور اس کو کچھ نہ دیا جائے۔ (مسند احمد) اس زمانے میں یہ بہت ہوتا ہے کہ سائل باللہ کو نہیں دیتے۔ کچھ نہ کچھ تو دینا چاہیے۔ سائلین نے بھی یہ عادت بنا لی ہے کہ جب بھی مانگتے ہیں تو یہی کہتے ہیں کہ للہ فی اللہ براے خدا ہم کو دو، اگرچہ بسبب موجود ہونے طعام صبح و شام، ان پر سوال کرنا حرام ہوتا ہے۔ آپ بھی ڈوبتے ہیں، اور دوسروں کو بھی بدترین خلق بناتے ہیں۔ سیدنا علیؓ سے روایت ہے کہ صدقہ دینے میں جلدی کرو، بلا اس سے آگے نہیں بڑھتی۔ مطلب یہ ٹھہرا کہ صدقہ ردّ بلا ہوتا ہے۔ تجربے نے اس کی شہادت دی ہے۔ دوسری دافع بلا چیز دعا ہے، جب کہ غفلت سے نہ ہو۔
صدقہ کے فضائل
سیدنا جابرؓ اور سیدنا حذیفہؓ سے روایت ہے کہ ہر معروف (اچھی بات یا کام) صدقہ ہے۔ (متفق علیہ) سیدنا ابوذرؓ روایت کرتے ہیں کہ کسی معروف یعنی نیکی کو حقیر نہ جان، اگرچہ ملے تو اپنے بھائی سے بہ کشادہ روی (مسلم) یعنی یہ بھی ایک نیکی و صدقہ ہے۔ ’’معروف‘‘ کہتے ہیں ہر طاعت خدا اور احسان الی الناس کو۔ منجملہ معروف کے ایک پہلو اپنے اہل و غیرہم کے ساتھ حسن صحبت ہے اور لوگوں سے ہشاش بشاش ملنا۔سیدنا ابوموسیؓ سے روایت ہے کہ ہر مسلمان پر صدقہ ہے۔ کہا کہ اگر نہ پائے۔ فرمایا: اپنے ہاتھوںسے کام کرے، یعنی کچھ کمائے اپنی جان کو نفع پہنچائے اور صدقہ کرے۔ کہا کہ اگر نہ کر سکے یا نہ کرے؟ فرمایا: کسی حاجت مند کی مدد کرے۔ کہا کہ اگر یہ بھی نہ کرے؟ فرمایا: خیر کا حکم کرے۔ کہا کہ یہ بھی اگر نہ کرے؟ فرمایا: شر سے باز رہے کہ یہ بھی صدقہ ہے۔ (متفق علیہ) اللہ کے احسان کی کچھ نہایت نہیں ہے۔ مسلمان کی ہر بات معروف ہے۔ اس کا ہر کام ہمراہ نیت صالحہ کے صدقہ ٹھہرتا ہے۔ سیدنا ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ ہر جوڑ پر آدمی کے ایک صدقہ ہے۔ ہر دن جس میں سورج نکلتا ہے دو شخصوں کے درمیان عدل کرنا صدقہ ہے۔ کسی کے جانور پر بار لادنے میں مدد کرنا یا متاع کا اٹھا دینا صدقہ ہے۔ اچھی بات کہنا صدقہ ہے۔ نماز کے لیے ہر قدم صدقہ ہے۔ ایذا کی چیز دور کرنا صدقہ ہے۔ (متفق علیہ)
سیدنا ابوذرؓ سے روایت ہے کہ تمھارا جماع کرنا صدقہ ہے۔ پوچھا گیا کہ وہ تو جنسی تسکین کرتا ہے اور اس میں اس کو اجر ملتا ہے؟ فرمایا: اگر وہ اس شہوت کو حرام میں صرف کرتا توکچھ گناہ ہوتا۔ جب اس کو حلال میں صرف کیا تو اب اس کے لیے اجر ہوگا۔ (مسلم) یعنی اس کے ضمن میں تحصین فرج اور اداے حق زوجہ و طلب ولد صالح ہے اور یہ امور بذاتہا صدقات و قربات ہیں۔ سیدنا انسؓ کی روایت یہ ہے کہ نہیں لگاتا کوئی مسلمان کوئی درخت یا کرتا ہے کھیتی، پھر اس سے انسان یا پرندے یا بہائم کچھ کھاتے ہیں لیکن یہ اس کے لیے صدقہ ہوتے ہیں۔ (متفق علیہ) سیدنا جابرؓ کی روایت میں یہ الفاظ آئے ہیں کہ جو کچھ اس میں سے چوری ہوگیا وہ بھی صدقہ ہے۔ غرض یہ ساری خوبی اسلام کی ہے کہ مسلمان کا ہر فعل وعمل عبادت ہوتا ہے ورنہ کافر کی کوئی نیکی بھی کیسی ہی عمدہ اور اعلیٰ درجے کی کیوں نہ ہو، کچھ نفع اس کو نہیں دیتی۔
سیدنا ابوہریرہؓ سے روایت کہ ایک گناہ گار عورت محض اس وجہ سے بخش دی گئی کہ اس کا گزر ایک کتے پر ہوا تھا جو برلب چاہ مارے پیاس کے زبان نکالے مرا جاتا تھا۔ اس عورت نے اپنا موزہ اتارکر اور اپنی اوڑھنی میں باندھ کر پانی نکالا اوراس کو پلایا۔ اللہ نے اس بات پر اس کو بخش دیا۔ صحابہؓ نے کہا کہ کیا ہم کو بہائم میں بھی اجر ملتا ہے؟ فرمایا: ہر جگر تر میں اجر ہے۔ (متفق علیہ) جگر تر سے مراد حیوان ہے۔ یعنی ہر جانور کے کھلانے پلانے میں اجر ملتا ہے مگر وہ جانور جس کے قتل کا حکم ہے جیسے سانپ، بچھو۔
سیدنا ابن عمرؓ اور سیدنا ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ نبیؐ نے فرمایا: عذاب کی گئی ایک عورت ایک بلی کے پیچھے کہ اس کو باندھ کر رکھا یہاں تک کہ بھوک سے مر گئی۔ نہ اس کو کھلایا اور نہ چھوڑ دیا کہ وہ زمین کے کیڑے مکوڑے کھاتی۔ (متفق علیہ) سیدنا ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ ایک مرد کا گزر ایک شاخ درخت پر ہوا جو راہ میں تھی۔ اس نے کہا میں اس شاخ کو مسلمانوں کی راہ سے الگ کر دوں گا تاکہ یہ ان کو ایذا نہ دے۔ وہ شخص جنت میں داخل کیا گیا۔ (متفق علیہ) ظاہر حدیث یہ ہے کہ مجرد نیت پر اس کی مغفرت ہوئی۔ مگر انھوں نے ایک دوسری روایت یوں بیان کی کہ میں نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ جنت میں لوٹ پوٹ رہا ہے بسبب ایک درخت کے جس کو اس نے راہ سے کاٹ ڈالا تھا کہ وہ لوگوں کو ایذا دیتا تھا۔ (مسلم)
ان حدیثوں سے اللہ تعالیٰ کی نکتہ نوازی اور نکتہ چینی ثابت ہوتی ہے کہ چاہے ادنیٰ بات پر پکڑ لے اور چاہے ادنیٰ بات پر بخش دے۔ لیکن پکڑ گناہ ہی پر ہوتی ہے، گو صغیرہ ہو۔ اور مغفرت حیلہ جو ہے، ذرا سی خیر پر بھی بخش دیتا ہے۔ سیدنا ابوبرزہؓ نے نبیؐ سے کہا تھا کہ مجھے کوئی ایسی بات بتائیے جس سے مجھے نفع ہو۔ فرمایا: دور کر ایذا کی چیز کو مسلمانوں کی راہ سے۔ (مسلم) اس سے معلوم ہوا کہ راہ کا سنگ وخار وغیرہ اشیا موذیہ سے صاف کرنا اور اہل اسلام کے آرام کے واسطے سڑکوں کا بنانا منجملہ اسباب مغفرت کے ہے۔
(تدوین: امجد عباسی)