مذہب سے محرومی کے نتائج

7623

مذہبی احساسات سے محروم ہوکر انسان اپنی انسانیت کو بھی برقرار نہ رکھ سکے گا۔ آپ غور کریں کہ انسان اگر حیوان سے ممیز و ممتاز ہے، تو اس کی وجہ یہی تو ہے کہ وہ اخلاقی احساسات رکھنے کی بناپر اپنی حسّی اور مادی خواہشات کو اخلاقی حدود کے اندر رہ کر پورا کرتا ہے، اور ان احساسات کی وجہ ہی سے وہ مادی سود و زیاں سے بلند تر ہوکر اچھے اور پاکیزہ مقاصد کے حصول کی خاطر بڑی سے بڑی قربانی دینے کے لیے تیار ہوجاتا ہے۔ اگر انسان کا اخلاقی شعور، جو مذہبی احساس کی وجہ سے قائم ہے، ختم ہوجائے تو پھر انسان کے اندر حسّی لذات اور مادّی مفادات سے بلندتر ہوکر سوچنے اور اعلیٰ اخلاقی مقاصد کے حصول کی خاطر زندہ رہنے کی کوئی تمنّا باقی نہیں رہتی ، اور انسان زندگی کا وہی نہج اختیار کرلیتا ہے جو حیوانوں کا ہے۔
اخلاقی احساس کی عدم موجودگی میں یہ سوال سامنے آتا ہے کہ ’انسانی عمل کا محرک کیا ہے؟‘
اس کا ایک ہی جواب ممکن ہے کہ ’’جب روحانی اور اخلاقی احساس موجود نہ رہے تو پھر حسّی لذت کی تسکین، مادّی منفعت کی چاٹ اور نفع کی اْمید ہی کو عمل کا سب سے بڑا محرک قرار دیا جاسکتا ہے۔ اگر انسان کے اندر کسی بلند روحانی نصب العین کے حصول کی خواہش نہ ہوتو لامحالہ وہ حسّی خواہشات کی تکمیل ہی کے لیے سرگرمِ عمل ہوگا۔ انسان کے لاشعور میں مذہب کے بچے کھچے اثرات موجود ہونے کی وجہ سے وہ ابھی تک درندگی کی اْس سطح پر نہیں اْترا، اندریں حالات جس پر اْسے فی الواقع اْتر جانا چاہیے تھا۔ لیکن اگر مذہب کے خلاف نفرت کا یہی جذبہ پرورش پاتا رہا، تو پھر دْنیا کی کوئی قوت اسے اس پست سطح پر اْترنے سے نہیں بچا سکتی۔
وہ لوگ انسانی فطرت کے بارے میں شدید غلط فہمی میں مبتلا ہیں، جو یہ سمجھتے ہیں کہ ’’وہ انسان کو مذہب کے بغیر بھی انسانیت کے وسیع تر مفادات کے لیے ایثار و قربانی پر اْبھار سکتے ہیں‘‘۔
یہ لوگ غلطی سے سمجھ بیٹھے ہیں کہ وہ ایک مخصوص قسم کے نظامِ تعلیم و تربیت کے ذریعے عوام کے اندر اجتماعی مفادات کی محبت پیدا کرکے اْنھیں غیرمعمولی ایثار پر آمادہ کرسکیں گے، مگر یہ لوگ شاید ایثار کی نفسانی کیفیت سے یکسر ناواقف ہیں۔ اگر کوئی انسان اپنے ذاتی مفادات کو وسیع تر مفادات کی خاطر قربان کرتا ہے، تو وہ یہ عظیم قربانی بھی روحانی احساس کے تحت کرتا ہے۔ ورنہ حسّی لذات اور مادّی خواہشات تو انسان کے اندر خود غرضی اور نفس پرستی کے جذبات پیدا کرتی ہیں۔
انسان کے اندر اجتماعی زندگی کی تشکیل کے لیے ایثار، بنی نوع انسان سے بے لوث محبت، دوسروں کے دْکھ درد میں ان سے تعاون، مصیبت کے وقت ان کی معاونت اور دستگیری، کمزوروں اور بے بسوں پر رحم، یہ سب روحانی احساسات کے مختلف مظاہر ہیں۔ اگر یہ احساسات مٹ جائیں تو پھر انسان خود غرضی اور شقاوتِ قلبی کا پیکر بن جاتا ہے، اور اپنے طرزِ عمل میں درندوں سے بھی زیادہ خونخوار ہوجاتا ہے۔ اس صورت میں کیا کسی تہذیب کا نام و نشان باقی رہ سکتا ہے؟
اگر اخلاقی حس ناپید ہے تو پھر انسان کو اس بات کی آخر کیا ضرورت ہے کہ وہ اپنی خواہشات کو قربان کر کے دوسروں کو آرام اور سکون فراہم کرنے کا التزام کرے، اور کمزوروں اور بے بسوں کو دْنیا سے مٹا کر اپنے وسائل میں وسعت پیدا کرنے کے بجائے اْن سے تعاون کرے، اور اْنھیں زندہ رکھ کر ان وسائل میںا ْنھیں شریک ٹھہرائے؟
سوچیے کہ آخر وہ کون سا جذبہ ہے، جس کے تحت نوجوان اپنے بوڑھے والدین کا ہنسی خوشی بوجھ اْٹھاتے ہیں، حالانکہ ان سے نفع کی کوئی اْمید باقی نہیں ہوتی۔ مادّی نقطۂ نظر سے تو یہ لوگ خاندان اور معاشرے پر بار ہوتے ہیں اور ان کا سب سے اچھا مصرف یہی ہے کہ ان کے نحیف اور بیکار وجود سے دْنیا کو پاک کیا جائے۔
ایک نہیں، بہت سے ایسے قواعد و ضوابط جن کی پابندی لادینی عناصر اور معاشرے بھی کرتے ہیں، ان کی تہہ میں دراصل مذہب کے پیدا کردہ اخلاقی احساسات ہی کارفرما ہوتے ہیں۔ ماں، بہن اور بیٹی سے نکاح کو جو سخت ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے تو اس کی وجہ بھی مذہبی احساس ہی ہے، ورنہ خالص مادّی نقطۂ نظر سے تو اس میں کوئی قباحت نظر نہیں آتی۔ ان رشتوں میں ایک خاص نوعیّت کی جو تقدیس پائی جاتی ہے، وہ صرف مذہب کی رہینِ منت ہے۔ انسان خواہ زبان سے مذہب کا مخالف اور دشمن ہو، مگر اس کے لاشعور میں بہن اور بیوی کے درمیان یا بیوی اور ماں کے درمیان جو ایک واضح امتیاز ہوتا ہے، وہ مذہب کا پیدا کردہ ہے۔ خالص حیوانی نقطۂ نظر سے اس تفریق اور امتیاز کا کوئی جواز نہیں۔