اعتدال یعنی توازن

7186

انسانی زندگی میں متعدد بار ایسی صورت حال سامنے آتی ہے جہاں اس کی فطرت اور شریعت اس سے زندگی کے دو یا مختلف پہلوؤں کے حوالے سے متوازن اور معتدل رویہ اختیار کرنے کا مطالبہ کرتی ہے لیکن وہ کسی ایک کی طرف ایسا جھکتا ہے کہ دوسرے کو بالکل ہی نظر انداز کردیتا ہے۔ ایسا اس کی انفرادی زندگی میں بھی ہوتا ہے اور اجتماعی زندگی میں بھی جہاں وہ زندگی کے اجتماعی مسائل کو حل کرنے کے لیے مختلف نظام تشکیل دینے کی کوشش کرتا ہے۔ انفرادی زندگی میں مثال کے طور پر انسان فطری طور پر ہی دو چیزوں سے مرکب ہے اور وہ ہے مادہ اور روح۔ شریعت نے بھی ان دونوں کو قبول کیا ہے اور دونوں کے حوالے سے رہنمائی کی ہے۔ لیکن انسانی تاریخ ہو یا مسلمانوں کی تاریخ، مادے اور روح کے حوالے سے بے اعتدالی انسانوں کا ایک عام شیوہ رہی ہے۔ یہاں مسئلہ روح یا مادے کے صحیح یا غلط ہونے کا نہیں ہے بلکہ روح کو اس کا حق دینے اور مادے کو اس کا حق دینے کا ہے۔ چنانچہ اسی تناظر میں احادیث میں آئے وہ اکثر قصے سمجھے جاسکتے ہیں جن کا حوالہ اعتدال اور وسطیت کے لٹریچر میں کثرت سے دیکھا جاسکتا ہے۔ مثال کے طور پر ایک حدیث میں یہ واقعہ بیان ہوا کہ اللہ کے رسولؐ ایک صحابی کے گھر گئے اور ان سے پوچھا کیا یہ صحیح ہے کہ تم مستقل رات بھر تہجد پڑھتے ہو اور دن بھر روزہ رکھتے ہو؟ انھوں نے جواب دیا جی ایسا ہی ہے۔ اللہ کے رسولؐ نے فرمایا: ’’تم ایسا مت کرو، قیام لیل بھی کرو اور نیند بھی لو، روزہ بھی رکھو اور بنا روزے کے بھی دن گزارو۔ یاد رکھو تم پر تمھارے جسم کا بھی حق ہے، اور تمھاری آنکھوں کا بھی حق ہے، تمھاری زیارت کرنے والوں اور مہمانوں کا بھی حق ہے اور تمھاری بیوی کا بھی حق ہے‘‘۔ یہ تعلیم اعتدال اور توازن کے اس پہلو کو سمجھنے کے لیے بہت ہی اہم ہے۔
اسی طرح ایک مرتبہ اللہ کے رسولؐ کے گھر تین افراد تشریف لائے اور امہات المومنین سے اللہ کے رسولؐ کی عبادت کے متعلق دریافت کیا۔ ان کو جب بتایا گیا تو ان کو کم لگا۔ انھوں نے کہا اللہ کے رسولؐ سے ہمارا کیا مقابلہ ان کے تو آگے پیچھے کے سارے گناہ معاف کردیے گئے ہیں۔ چنانچہ ان میں سے ایک نے یہ فیصلہ کیا کہ اب رات بھر جگ کر تہجد پڑھا کروں گا۔ دوسرے نے کہا اب میں ہمیشہ بلا ناغہ روزے سے رہوں گا۔ تیسرے نے کہا اب میں عورتوں سے ہمیشہ دور رہوں گا اور کبھی شادی نہیں کروں گا۔ اللہ کے رسولؐ کو جب اطلاع ملی تو آپ ان کے پاس آئے اور ارشاد فرمایا: ’’تم لوگوں نے ایسا ایسا طے کیا ہے۔ خدا کی قسم میں تم سب میں سب سے زیادہ اللہ کی خشیت والا اور اللہ کا تقوی اختیار کرنے والا ہوں لیکن میں روزے بھی رکھتا ہوں اور بلا روزہ بھی رہتا ہوں، تہجد بھی پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں، اور صاحب زوجات بھی ہوں۔ یاد رکھو جس نے میری سنت سے منہ موڑا اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں ہے‘‘۔ گویا اسلام نے مادے اور روح یا جسم اور روح دونوں کے حقوق کا پورا پورا اعتراف کیا ہے اور دونوں میں سے کسی کو بھی سرے سے ختم کرنے یا دبانے کی کوشش کرنا یہ بے اعتدالی کی علامت قرار پائے گا۔ اسی طرح کا معاملہ عقل اور وحی کا ہے۔ معرفت کے لیے عقل اور وحی دونوں کا بنیادی کردار ہے اور دونوں کی اپنی اہمیت ہے۔ دونوں میں سے کسی کو بھی ترک کرنا اس کے حق میں زیادتی کہلائے گی۔ ایسے میں عقل اور وحی دونوں کو پورا پورا مقام دینا ہی توازن اور اعتدال کا تقاضا ہے۔