تحریک عدم اعتماد اورانجام کار

702

پاکستان میں اپوزیشن نے عدم اعتماد ایک ایسے وقت پیش کی جس وقت اپوزیشن کو یہ یقین ہو گیا تھا کہ حکومت عوام میں غیر مقبول ہو چکی ہے۔ اپوزیشن کو یہ یقین بھی ہو چلا کہ اس وقت اسٹیبلشمنٹ اور حکومت کے درمیان بعض امور پر اختلافات کی وجہ سے اب اسٹیبلشمنٹ بھی عمران حکومت سے کنارہ کشی کر چکی ہے اور اب وہ نیوٹرل رہے گی۔ اپوزیشن کو اتحادی پارٹیوں اور منحرفین نے بھی یقین دلادیا کہ اب ہم مزید عمران خان کی حکومت کا ساتھ نہیں دیں گے۔ اسی طرح عمران حکومت کے کچھ ابن الوقت یہ سمجھے کہ یقینا اپوزیشن بہت مضبوط ہے اس لیے حکومت کو گرانے میں اپوزیشن کا ساتھ دے کر آئندہ اگر ن لیگ، پی پی یا پھر جے یو آئی سے ٹکٹ مل جائے تو اگلے پانچ سال محفوظ کیے جا سکتے ہیں۔ پانچویں طرف پی ٹی آئی کے اندرونی اختلافات اس مقام تک چلے گئے کہ جہانگیر ترین اور علیم خان نے بھی اپوزیشن کو یقین دلایا کہ آپ عمران حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائیں ہم بھی آپ کا ساتھ دیں گے۔ اس کے علاوہ کچھ عالمی طاقتوں نے بھی اپوزیشن کو عمران حکومت گرانے کا اشارہ دیا اور مدد بھی کی۔ ان وجوہات کی بنیاد پر اپوزیشن تحریک عدم اعتماد لے آئی۔ اور اس کو یقین تھا کہ ہم کامیاب ہو جائیں گے۔
دوسری طرف عمران حکومت نے کچھ تو اچھے کام کیے۔ لیکن اس نے۳ سال میں بدنامی اور بد زبانی اور مہنگائی کے علاوہ عوام کو کچھ نہ دے سکی۔ اور اس کے ساتھ عمران حکومت نے جو بلند بانگ دعوے اور وعدے کیے عملاً وہ ان پر عمل درآمد بھی نہ کر سکی۔ مثلاً کشکول توڑنے کا وعدہ، آئی ایم ایف کے پاس نہ جانے کا وعدہ، ایک کروڑ نوکریوں کا وعدہ، لاکھوں غریبوں کو گھر بنا کر دینے کا وعدہ، قومی اداروں میں ریفارم اور پاکستان کو مدینہ کی فلاحی ریاست بنانے کا وعدہ۔ ان تمام وعدوں کو حکومت ایفا نہ کر سکی جبکہ اس کے مقابلے میں ڈالر کی وجہ سے روپے کی قیمت میں ۳۵ سے ۴۰ فی صد کمی نے مہنگائی کی چکی میں عوام کو پیس کر رکھ دیا۔ عوام میں عمران حکومت کا گراف روز بروز گرنا شروع ہو چکا تھا اور عوام عمران حکومت کو گالیاں اور بد دعائیں دے رہے تھے اس لیے اپوزیشن سمجھی کہ ان حالات میں عوام بھی عمران خان کا ساتھ نہ دیں گے اور ہم تحریک عدم اعتماد لا کر کامیاب ہو جائیں گے۔
لیکن اپوزیشن اس بات کو نہ سمجھ سکی کہ گزشتہ ۳۰،۳۵ سال میں وہ بار بار حکومت کرنے کے باوجود کامیاب نہیں ہو سکی بلکہ وہ کرپٹ ہیں، چور ہیں، ظالم ہیں، مغربی کلچر کے دلدادہ ہیں، ملک اور عوام کی کوئی علمی، تعلیمی، صحت، روزگار کے معاملے میں خدمت نہ کر سکے تھے۔ جبکہ ہمیشہ ملکی طاقتوں کو بدنام اور ان کے ساتھ جنگ کرتے رہے جن کی وجہ سے اس کی حکومت کو توڑا جاتا رہا اور خصوصاً ان پر کچھ ایسے الزامات بھی تھے کہ وہ مغربی طاقتوں کے ایما پر چلتے ہیں اور خصوصاً آخر میں نواز شریف کو تین سال کے اندر اندر ان ہی طاقتوں نے گھر بھیج دیا۔ اپوزیشن یہ بھی نہ سمجھ سکی کہ اس وقت خطے میں پاکستان، افغانستان، روس، چین اور سعودی عرب کی حکومتیں عالمی طاقتوں کے ساتھ جنگ میں عمران خان اور پاکستانی اسٹیبلشمنٹ ایک واضح لائن پکڑ چکے ہیں جبکہ دوسری طرف امریکا، اسرائیل اور بھارت بھی ایک واضح لائن اور موقف اختیار کر چکے ہیں۔
تیسری طرف اپوزیشن اسٹیبلشمنٹ کی اس چال کو نہ سجھ سکی کہ تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں خواہ وہ کامیاب ہو یا ناکام ہر دو صورت میں اس کا فائدہ عمران خان کی پارٹی کو ہو گا پہلی صورت میں وہ سیاسی شہید بن کر عوام میں جائے گا اور دوسری صورت یعنی خصوصاً تحریک عدم اعتماد کی ناکامی کی صورت میں وہ اپوزیشن کی تینوں پارٹیوں کو گرا کر کس قدر طاقتور وزیراعظم بن کر ابھرے کا اور عوام کے اندر اس کی پزیر آرائی کا گراف کس قدر اوپر چلا جائے گا اور اس کے نتیجے میں اپوزیشن کا شیرازہ کس قدر بکھر جائے گا۔ اپوزیشن اس بات کو بالکل نہ سمجھ سکی کہ اس تحریک عدم اعتماد کی وجہ سے وہ عمران خان کو کمزور کرنے کے بجائے اگلے پانچ سال کے لیے کنفرم وزیر اعظم بنادیں گے کیونکہ ملکی اور خطے کی تمام طاقتیں اس وقت عمران خان کی حکومت کو نہیں دیکھنا چاہتی ہیں۔ ان وجوہات کی بنیاد پر میرا خیال ہے کہ تحریک عدم اعتماد ناکام یا ختم ہو جائے گی۔
ان حالات میں جماعت اسلامی پاکستان کے لیے کیا لائحہ عمل بہتر ہے۔ اپوزیشن کی تمام پارٹیوں نے جب بھی جماعت اسلامی کے ساتھ اتحاد کیا انہوں نے جماعت کو نقصان ہی دیا۔ اندرون خانہ جماعت کے خلاف ہی کام کیا، اور ان اتحادوں میں اتحادی پارٹیوں نے جماعت کے ساتھ کبھی ایفائے عہد بھی نہ کیا۔ اور پھر اتحاد کے بعد جب جماعت اسلامی اتحاد سے باہر آئی تو بڑی تعداد میں اپنا ووٹر ان پارٹیوں میں چھوڑ آئی اور خود سکڑ کر رہ گئی۔ اس لیے عمران حکومت کو گراکر اس کو سیاسی شہید بنانے کا جماعت اسلامی کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ جماعت اسلامی کے مرکزی قیادت کے لیے تجویز یہ ہے کہ رابطہ عوام مہم جو جماعت کا ووٹر کے ساتھ تعلق جوڑتی ہو مسلسل چلانے کی ضرورت ہے تاکہ ووٹر کے ساتھ رابطہ بڑھ سکے، کیونکہ اس ملک میں جماعت اسلامی ہی وہ واحد پارٹی ہے جو محب وطن، محب اسلام، خدمت پر یقین رکھنے والی امانت دار، دیانت دار قیادت رکھنے والی پارٹی ہے۔ جماعت اسلامی کا فرض ہے کہ وہ عوام تک اپنے نظریات اور نصب العین کو پہنچائے۔ پاکستان میں زیادہ سے زیادہ اپنے ووٹر کو نظریاتی بنائے۔ تربیت گاہوں میں لے جائے اور اس کو مولانا مودودیؒ کے زندہ لٹریچر جو آج بھی انسانوں کے نظریات کو مسخر کرنے کی طاقت رکھتا ہے وہ لٹریچر عوام کو پڑھائے۔ اور عوام کو نظریاتی سیاست کی طرف لے کر آئے۔ جس طرح جماعت اسلامی نے اب پالیسی بنائی ہے اگر صبر و تحمل سے اس پر چلتی رہی تو ان شاء اللہ بہت جلد اللہ اس کی تھوڑی محنت کو بڑھا کر زیادہ صلہ ضرور دے گا بشرطیکہ صالح افراد اور قیادت کو خواہ وہ جماعتی ہو یا سیاسی اس کو آگے لائے اور اس کو عوام میں رکھے۔