…مادی لذتیں اور روحانی مسرت

310

کیا روح کی لذت اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ انسان جسم کی لذتوں سے بیگانہ ہوجائے؟
بہت سے بزرگوں کے بیانات سے ایسا لگتا ہے کہ جب تک آدمی جسم کی لذتوں سے بیگانہ نہیں ہوجائے، اسے روح کی لذت حاصل نہیں ہوتی ہے اور جسے روح کی لذت حاصل ہوجاتی ہے وہ لازماً جسم کی لذتوں سے بے گانہ ہوجاتا ہے۔ لیکن یہ بات درست نہیں معلوم ہوتی ہے۔ حقیقت سے قریب بات یہ ہے کہ بندہِ عارف مادی لذتوں کو اللہ کی عنایت سمجھ کر ان سے لطف اٹھاتا ہے اور ان پر اللہ کا شکر ادا کرتا ہے۔ مادی لذتوں پر شکر گزاری اس کی روح کو فرحت بخش احساس عطا کرتی ہے اور اس طرح مادی لذت روحانی مسرت میں تبدیل ہوجاتی ہے۔
یہ روحانیت کا اعلی مقام ہے کہ آدمی جسم کی لذتوں کو روح کی سطح پر جاکر محسوس کرے۔ اس دنیا کی ہر لذت اسے اپنے رب کی یاد دلائے اور اس سے قریب کردے۔
اللہ کے رسولؐ نے فرمایا: دنیا کی چیزوں میں میرے دل میں عورتوں اور عطر کی محبت ڈالی گئی ہے اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں رکھی گئی ہے۔ (سنن النسائی) ایک دل کو نماز میں قرار ملے، اور اس دل میں بیوی اور عطر کے لیے بھی جگہ ہو۔ یہ روح اور جسم کے درمیان اعتدال و توازن کی نہایت حسین مثال ہے اور یہی روحانیت انسان سے مطلوب ہے۔
نماز میں نفسانی خیالات کا غلبہ ہوتا ہو یا نفسانی خواہشات کی تکمیل کے وقت اللہ کی یاد نہیں آتی ہو، دونوں ہی صورتیں اس بات کی چغلی کھاتی ہیں کہ انسانی وجود پر نفس پرستی غالب ہے۔
مادیت پر روحانیت کا غلبہ یہ ہے کہ خالص مادی لذتوں میں انسان روحانی لذت کے پہلو تلاش کرلے اور خالص روحانی کیفیتوں میں مادی لذتوں کو ذرا مخل نہیں ہونے دے۔ انسان کو کھانا کھاتے وقت اللہ کے ذکر کی لذت بھی حاصل ہو، لیکن نماز کی حالت میں وہ مادی لذتوں سے بالکل بے گانہ ہوجائے۔
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، جب پکارا جائے نماز کے لیے جمعہ کے دن تو اللہ کے ذکر کی طرف دوڑو اور خرید و فروخت چھوڑ دو، یہ تمہارے لیے زیادہ بہتر ہے اگر تم جانو۔ پھر جب نماز پوری ہو جائے تو زمین میں پھیل جاؤ اور اللہ کا فضل تلاش کرو اور اللہ کو کثرت سے یاد کرتے رہو، شاید کہ تمہیں فلاح نصیب ہو جائے‘‘۔ (الجمعۃ: 9-10)
پہلی آیت میں اشارہ ہے کہ جب خالص روحانی کیفیت کے حصول کا وقت ہو تو مادی رغبتوں سے بالکل کنارہ کش ہوجانا چاہیے، اور دوسری آیت میں اشارہ ہے کہ جب مادی تقاضوں کی تکمیل ہورہی ہو تو اس وقت بھی بندے کی کیفیت روحانی ہی رہنی چاہیے۔
مادی لذتوں کی سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ وہ انسان کو کسی حد میں نہیں رہنے دیتی ہیں، ہر لذت اسے دوسری لذت کا دیوانہ بناتی ہے، وہ نئی لذت کی تلاش میں آوارہ پھرتا ہے۔ دنیا کی بہت سی برائیوں کا سبب یہی ہے کہ آدمی کو مادی لذتوں سے سیرابی نہیں ہوتی اور اس کی خواہشات کی پیاس کبھی نہیں بجھتی۔ مثال کے طور پر اللہ نے انسان کے لیے جنسی لذتوں کے حصول کا بہترین انتظام کیا ہے۔ لیکن وہ کچھ اور کی تلاش میں بے شمار غیر فطری طریقوں کی طرف بھاگتا ہے اور اسے قرار نہیں ملتا۔ وہ کتے کی طرح ہانپتا ہی رہتا ہے۔ لیکن جب انسان مادی لذتوں کو روح کی سطح پر محسوس کرتا ہے، تو اس کی خواہشات میں ٹھہراؤ اور اعتدال آتا ہے۔ روحانی مسرت اس کی مادی لذتوں کو حد اعتدال میں بھی رکھتی ہے اور بلندی و وقار بھی عطا کرتی ہے۔ اسی لیے ہر قسم کی مادی لذتوں کے حصول کے وقت روحانی کیفیت کا ساتھ رہنا ضروری ہے۔ جو اللہ کے ذکر و شکر سے حاصل ہوتی ہے۔
غم دور کرنے اور خوشیاں بانٹنے کی خوشی
جب انسان کو کسی تکلیف سے نجات ملتی ہے یا اسے کوئی نعمت حاصل ہوتی ہے، تو اسے خوشی کا احساس ہوتا ہے۔ یہ نفس کی خوشی ہوتی ہے۔ جب انسان اس خوشی پر اللہ کا شکر ادا کرتا ہے تو یہ روح کی خوشی بن جاتی ہے۔
لیکن جب انسان کسی دوسرے انسان کی تکلیف کو دور کرتا ہے، یا اس کی کسی ضرورت کو پورا کردیتا ہے، تو بھی اسے بہت خوشی ہوتی ہے۔ یہ خوشی روحانی ہوتی ہے، جب وہ یہ کام ہمدردی کے جذبے کے تحت کرتا ہے اور اس کا مقصود صرف اللہ کو راضی کرنا ہوتا ہے۔ اور یہ خوشی نفسانی ہوتی ہے جب وہ یہ کام اپنے نفس کے کسی جذبے کی تسکین کے لیے کرتا ہے، جیسے لوگوں کی نظر میں ہیرو بننے کی خواہش۔