افکار سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ

305

جماعت ِ اسلامی کا مقصد
اقامتِ دین، جماعت ِاسلامی کا صرف اجتماعی مقصد نہیں بلکہ اس کے ایک ایک رکن کا ذاتی مقصد بھی ہے۔ تبلیغ انفرادی طور پر بھی ہو سکتی ہے مگر اقامت کے لیے جدوجہد اجتماعی اور منظم ہونی چاہیے۔ جو لوگ اقامتِ دین کے تقاضوں کا شعور رکھتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ یہ ایک ایسا عملی کام ہے، جس کے لیے اجتماعیت کی ضرورت ہے۔ یہ کام منظم محنت کامحتاج ہے اور منتشر اور غیر منظم افراد اسے ہرگز انجام نہیں دے سکتے۔
٭…٭…٭
دنیا میں بعض ایسے اجتماعی ادارے بھی ہیں، جہاں ایک فرد اپنا ذاتی مقصد الگ رکھتے ہوئے بھی ان کے محدود مقاصد کی تکمیل میں شریک ہو سکتا ہے، مثلاً کوئی کلب ہے جو بالکل محدود مقاصد کے لیے وجود پذیر ہوا ہے، لوگ اس کے رکن بنتے ہیں اور کلب کے مقصد کے لیے کام کرتے ہیں، لیکن کلب کا مقصد ان کی اپنی شخصی زندگیوںکا مقصد نہیں ہوتا۔ جماعت اسلامی کا معاملہ ایسا نہیں ہے۔ اس جماعت کا ہر رکن جس کو اپنا اجتماعی یا جماعتی مقصد جانتا ہے وہ اس کا ذاتی مقصد بھی ہے۔ ظاہر ہے کہ جو شخص دین کو اپنا مقصدِ زندگی بنالے، اپنی انفرادی زندگی میںبھی اور اجتماعی زندگی میں بھی، وہ اپنی ہر سعی اور اپنی محنت کی ہر رمق اس میںکیوں نہ لگائے، وہ ضرور لگائے گا۔
جماعت اسلامی کے کارکنوں کو اچھی طرح سے یہ ذہن نشین رکھنا چاہیے، یہ دین ان کا ذاتی مقصد بھی ہے۔ اگر ایک شخص نے اپنا کوئی مقصد زندگی مقرر کر لیا ہے تو پھر اس کے لیے فطری اور ضروری ہے کہ وہ اس کے حصول کے لیے اپنے تمام ذرائع، وسائل اور اپنا تمام وقت اور اپنی محنت و قابلیت اس میں لگا دے، کیونکہ وہ مقصد اس کا مقصدِ زندگی ہے اور وہ اسی کے لیے جیتا ہے۔ اور اگر کوئی شخص اقامتِ دین کو اپنا مقصد زندگی قرار دے کر کام نہیں کرتا تو کہنا پڑے گا کہ وہ اس کا مقصد زندگی ہی نہیں۔ اگر اقامتِ دین اس کا مقصد زندگی ہوتا اور وہ اس کا شعور بھی رکھتا تو سیدنا صدیق اکبرؓ کے طرز عمل کی یاد اسے ضرور بے چین کیے رکھتی۔
٭…٭…٭
اقامتِ دین: انفرادی تقاضے
دین کا فہم: اِس مقصدِ زندگی کے کچھ تقاضے اور ضروریات ہیں۔ پہلی چیز یہ ہے کہ مقصدِ زندگی قرار دے لینے کے بعد اس کا علم وفہم ضروری ہے۔ جو شخص اپنے مقصد کا علم حاصل نہیں کرتا اور نہ اس کی فکر کرتا ہے، وہ اپنے مقصد کے شعور سے تہی دامن ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے مقصد کا علم وشعور حاصل کرے اور اس کے مطابق اپنے اندر استعداد پیدا کرے۔
مطلوبہ اخلاقی اوصاف: دوسری چیز ہے، اپنے مقصد کے مطابق اپنے اندر اخلاق پیدا کرنا۔ مبلّغ کے لیے بس اتنا کافی ہے کہ وہ اچھے اخلاق کا حامل ہو۔ لیکن اقامتِ دین کے لیے اس سے کہیں زیادہ طاقت ور اور مضبوط سیرت کی ضرورت ہے۔ یہاں قدم قدم پر مخالف ہوائوں اور مزاحم قوتوں کا سامنا ہوتا ہے، چپے چپے پر رکاوٹوں کی باڑیں کھڑی ملتی ہیں اور مقابلہ ہوتا ہے۔ پھر اس راہ میں صرف مزاحمتوں ہی سے سابقہ نہیں پڑتا، زیادتیوں سے واسطہ بھی درپیش ہوتا ہے۔ یہاں گالیاں بھی ملتی ہیں اور بہتانوں کی غلاظت بھی اپنے اوپر برداشت کرنی پڑتی ہے، اور جیل بھی دیکھنی پڑتی ہے اور لالچ اور ترغیب کی وادیاں بھی قطع کرنی پڑتی ہیں۔
حکمت: تیسری ضرورت اس راہ میں حکمت کی ہے۔ اس مقصد کے حامل میں اتنی صلاحیت ہونی چاہیے کہ وہ ہر بلا کا سامنا حکمت سے کر سکے۔ راستے کا کوئی کانٹا اگر اس کا دامن کھینچتا ہے تو وہ اس سے اپنا دامن چھڑائے۔ اگر وہ دامن نہیں چھوڑتا تو اپنے دامن کا اتنا ٹکڑا پھاڑ کر پھینک دے اور اپنی منزل کو چل کھڑا ہو۔ یہ مقصد نوعیت میں خالص علمی ہے اور اس کا تقاضا ہے کہ وقت ضائع نہ ہو، یکسوئی ہو اور صرف ایسی چیزوں کی جانب توجہ ہو جو حصولِ مقصد میں معاون و مددگار ہو سکتی ہیں۔ اس مقصد کا حامل بیکار بحثوں میں نہیں الجھتا۔ اپنا وقت ضائع نہیں کرتا ہے اور نہ گالی کا جواب گالی سے دیتا ہے۔ یہ تقاضے مقصد کو ذاتی حیثیت میں اختیار کرنے کے تھے۔ اب اس کے جماعتی حیثیت میں تقاضوں کو بھی سمجھ لیجیے۔