افکار سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ

388

ہمارا مقصد
ہمارا مقصد کیا ہے؟ جیسا کہ ہم میں سے ہر ایک جانتا ہے کہ ہمارا مقصد اقامتِ دین ہے، یعنی پورے کے پورے دین کو عملاً نافذ کرنا۔ اور یہ نفاذ صرف اپنے ہی ملک تک مقصود نہیں ہے بلکہ تمنّا یہ ہے کہ یہ پوری دنیا میں نافذ ہو اور پورا کرۂ ارضی حلقہ بگوشِ اسلام ہو جائے۔ لیکن اس کی ترتیب یہ ہے کہ یہ پہلے پاکستان میں نافذ ہو۔ اس کے بعد اس کے وسائل کو دین کی عالمی تبلیغ کے لیے استعمال کیا جائے۔
٭…٭…٭
اقامتِ دین اور تبلیغِ دین
اگر ہم اپنے ذمے صرف تبلیغِ دین ہی کا فرض رکھتے تو ہمارا کا م بہت ہلکا تھا۔ تبلیغ کی ذمے داریاں زیادہ گراں نہیں ہیں۔ ایک شخص نماز کی تبلیغ کرتا ہے، وہ لوگوں کو ارکانِ نماز اور طریقۂ نماز سے متعارف کراتا ہے اور مسجد کی ضرورت سے آگاہ کرتا ہے۔ مبلغ کی حیثیت سے اس کا کام یہاں ختم ہوگیا، کیونکہ تبلیغ کی حدود تلقین سے آگے نہیں بڑھتیں۔ لیکن جس شخص نے اپنے ذمے صرف تبلیغِ صلوٰۃ نہ لے رکھی ہو، بلکہ اقامتِ صلوٰۃ بھی ہو، اس کے کام کی حدود اس سے بہت آگے بڑھ جاتی ہیں۔ اس کے ذمے یہ بات بھی ہوتی ہے کہ وہ مسجد بنائے بھی اور اس کا انتظام و انصرام بھی کرے اور اس کی تعمیر کے لیے اینٹ چونا سیمنٹ بھی فراہم کرے۔ یہ سارے کام جب وہ کر رہا ہوتا ہے تو دور سے دیکھنے والا اسے شاید کسی دْنیوی شغل میں منہمک سمجھتا ہو اور یہ جان سکتا ہو کہ یہ شخص عمارت کے لیے جو عمارتی سامان فراہم کر رہا ہے، وہ اقامتِ صلوٰۃ کا ضروری حصہ ہے اور اقامتِ صلوٰۃ اس وقت تک ہو نہیں سکتی، جب تک مسجد نہ بنے اور مسجد کی تعمیر کے لیے لازم ہے کہ اینٹ، پتھر اور چونا بہم پہنچایا جائے۔ جب مسجد تعمیر ہوگئی اور اس کی شکل و صورت ہر نگاہ کو دکھائی دینے لگی، تب معلوم ہوگا کہ یہ اقامتِ صلوٰۃ کا کام ہے۔ کچھ لوگ شاید عمارت کا قبلہ رخ ہونا دیکھ کر اندازہ کرلیں کہ یہ اقامتِ صلوٰۃ کا کام ہو رہا ہے لیکن عام لوگ اس کی نوعیت سے اسی وقت آگاہ ہوتے ہیں جب کام پورا ہو چکتا ہے۔
ایسا ہی معاملہ اقامتِ دین کا ہے۔ لوگ اقامتِ دین کے بنیادی تقاضوں کو جب نہیں سمجھتے تو وہ متعجب ہوتے ہیں کہ یہ اقامتِ دین کا کیسا کام ہو رہا ہے۔ درآں حالیکہ یہ ساری ضروریات فریضہ اقامتِ دین کی ہیں جو پوری ہوں گی تو اقامتِ دین کا کام ہوگا۔ لوگ عام طور پر تبلیغ کو تو سمجھتے ہیں لیکن اقامتِ دین کی اصطلاح اْن کے لیے اجنبی ہوتی ہے اور وہ اس کے مفہوم اور تقاضوں کو کماحقہ نہیں سمجھ پاتے۔
(رحیم یار خان میں اجتماعِ کارکنان سے خطاب، 23 مارچ 1968ء)
nn