“آلو کی بمپر فصل؟ ہمیں پتہ ہی نہ چلا”، کسان حیران، کاشتکار و سرکار کے متضاد دعوے

577

پنجاب حکومت کے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق اس سال آلو کی متوقع فصل کا تخمینہ 8.5 ملین ٹن لگایا گیا ہے جبکہ گذشتہ سال یہ فصل 5.6 ملین ٹن تھی۔حکومت نے آلو کی اس فصل کو بمپر فصل سے تعبیر کیا ہے،

پنجاب حکومت کا دعویٰ ہے کہ گذشتہ دس برسوں میں یہ سب سے زیادہ پیدوار کا ریکارڈ ہے جبکہ کسانوں کی رائے میں ایسا نہیں ہے۔

حکومت کے مطابق آلو کی قیمتیں کم ہونے کی وجہ بمپر یعنی بہت ہی شاندار فصل ہے۔

میاں چنوں کے ایک زمیندار چوہدری فضل الہٰی کا کہنا ہے کہ اس وقت میں 23-24 روپے فی کلو کے بھاؤ آلو فروخت کر رہا ہوں جس سے ہمارے خرچے بھی پورے نہیں ہو رہے،لگتا ہے اس مرتبہ بہت زیادہ نقصان ہونے جا رہا ہے۔

یوریا، بجلی، آلو کے لیے بوریوں اور دیگر قیمتیں دیکھیں اور آلو کی قیمت دیکھیں۔ ایسے میں کسان کیا کاشت کرے گا۔ وہ کمائے گا کہاں سے اور کھائے گا کہاں سے؟

ساہیوال کے غلام مصطفی تاہو کو بھی یہی شکایت ہے، وہ کہتے ہیں میں اس وقت تقریباً بارہ سو سے پندرہ سو میں آلو کی بوری فروخت کر رہا ہوں۔ یعنی کسان دس سے پندرہ روپے فی کلو میں آلو فروخت کر رہا ہے۔

اس وقت پنجاب بھر میں آلو کی فصل تیار ہو چکی ہے اور کسان آلو کو فروخت کر رہے ہیں۔ مگر پنجاب کے اکثر کسانوں کو شکوہ ہے کہ انھیں آلو کے مناسب نرخ نہیں مل رہے جس سے انھیں شدید نقصان کا سامنا ہے۔ کچھ اضلاع میں آلو کی قیمت دس روپے فی کلو تک ہے۔

کسانوں کے مطابق کسان اس وقت تک نقصان میں رہے گا جب تک اس سے آلو 30 سے لے کر 35 روپے فی کلو تک نہیں خریدا جائے گا۔

صدر کسان اتحاد پاکستان میاں عمیر مسعود  کہتے ہیں کہ حکومت کی جانب سے پیش کیا جانے والا جواز کہ آلو کی بمپر فصل ہوئی ہے جس کی وجہ سے مارکیٹ میں اس کی قیمتیں کم ہیں، درست اعداد وشمار نہیں ہیں۔ آلو کی کوئی بمپر فصل نہیں ہوئی .وہ کہتے ہیں کہ ہماری سمجھ سے بالاتر ہے کہ اس صورتحال میں کہاں سے آلو کی بمپر فصل ہو گئی ؟

میاں عمیر مسعود کے مطابق حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں کئی سالوں سے ضرورت سے زیادہ آلو پیدا ہو رہا ہے اور ضرورت سے زائد آلو کو ایکسپورٹ کر دیا جاتا ہے۔ آلو کی فصل تیار ہوتے ہی ایکسپورٹرز مارکیٹ میں فعال ہو جاتے ہیں۔ جس سے آلو کی قیمت بنتی ہے اور کسان کو فائدہ ہوتا ہے۔وہ کہتے ہیں کہ اس کے لیے حکومت پہلے سے تیاری رکھتی ہے، ایکسپورٹرز کو سہولتیں فراہم کرتی ہے اور بین الاقوامی مارکیٹ کو بھی دیکھتی ہے۔ لگتا ہے کہ اس سال کوئی تیاری نہیں کی گئی، اور اب جب کسان تباہ حال ہو رہا ہے تو کہا جا رہا ہے کہ بمپر فصل ہوئی ہے۔

چئیرمین پوٹیٹو ریسرچ بورڈ پنجاب چوہدری مقصود احمد جٹ میاں عمیر مسعود کے دعوے سے متفق نہیں ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ہمیں تو لگتا ہے کہ یہ تو بمپر کی بھی بمپر فصل ہے۔تاہم انکاایکسپورٹ کے حوالے سے کہنا ہے کہ آلو افغانستان جارہا ہے مگر ایران بہت کم جا رہا ہے۔

آل پاکستان فروٹ اینڈ ویجیٹبل ایکسپوٹرز، امپوٹرز اینڈ مرچنٹ ایسوسی ایشن (پی ایف وی اے) کے مطابق اس سال ابھی تک آلو کی ایکسپورٹ کے لیے بڑی سرگرمی دیکھنے میں نہیں آئی ہے جس کی وجہ ملکی و بین الاقوامی حالات ہیں۔پی ایف وی اے کے سرپرست وحید احمد کہتے ہیں کہ ’ہمیں تو آلو کی فصل تیار ہونے کے بعد پتا چلا کہ آلو کی بمپر فصل ہوئی ہے۔ اگر یہ بات ہمیں پہلے پتا چل جاتی تو ممکنہ طور پر ہم حکومت کے ساتھ مل کر آلو کی ایکسپورٹ کے لیے خصوصی منصوبہ بندی کرتے

2017 میں ہمیں وقت سے پہلے بتایا گیا کہ آلو کی فصل شاندار ہو رہی ہے اور مارکیٹ سے آلو سستا ملے گا۔ لہذا ہم نے مقامی مارکیٹ سے سستا آلو خرید کر بین الاقوامی مارکیٹ میں 5.8 ٹن آلو فروخت کیا تھا۔ اس طرح کسان کو بھی بمپر فصل کا فائدہ ہوا تھا۔ اگر ہمیں پتا ہوتا اور ساتھ یہ یقین ہوتا کہ فصل بمپر ہو رہی ہے تو ہم بھی بین الاقوامی مارکیٹ سے اچھا حصہ وصول کرتے۔ اس لیے حکومت کو چاہیے کہ وہ تحقیق اور مارکیٹ انٹیلیجنس کو بہتر کر کے ہمیں مناسب اطلاعات فراہم کرے۔

انہوں نے کہاکہ اس وقت ایکسپورٹ کے لیے ایک مسئلہ کنٹینرز کی عدم دستیابی بھی ہے .اسی طرح بحری اور زمینی کرایوں میں اضافہ بھی بہت بڑا مسئلہ ہے۔ گذشتہ برسوں کے مقابلے میں اس سال کرائے دوگنا سے بھی زیادہ ہو چکے ہیں۔

تجارت اور سرمایہ کاری کے لیے وزیر اعظم پاکستان کے مشیر عبدالرزاق داود کا بھی دعویٰ ہے کہ ملک میں آلو کی فصل بمپر ہوئی ہے اور ان کے مطابق بدقسمتی سے اس وقت کووڈ اور مختلف پابندیوں کی وجہ سے ایکسپورٹ کا مسئلہ بنا ہوا ہے۔