بھارت میں مسلم دشمنی عروج پر: خاتون کو بینک سے نکال دیا گیا، ہندو نوجوان قتل پر بے گناہ مسلمانوں کی پکڑ دھکڑ

400

کرناٹک سے شروع ہونے والا حجاب تنازعے نے اب بہار میں بھی قدم رکھ دیا ہے جبکہ ادھر کرناٹک میں بجرنگ دل کے ایک کارکن کی ہلاکت کے بعد بے گناہ مسلمانوں کی بھی پکڑ دھکڑ جاری ہے .

۔بھارتی میڈیا کے مطابق بہار کے بیگوسرائے میں ایک باحجاب لڑکی کو سرکاری یوکو بینک برانچ میں لین دین کرنے سے روک دیا گیا۔ لڑکی نے اس واقعہ کی ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر شیئر کر دی۔ جسے کے بعد راشٹریہ جنتا دل ( آر جے ڈی) کے لیڈر تیجسوی یادو نے وزیر اعلی نتیش کمار کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے قصوروار بینک ملازمین کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔

ویڈیو کے مطابق تین سے چار بینک ملازمین نے اسے حجاب ہٹانے کے لیے کہا اور اس کے بعد ہی پیسے نکالنے کی اجازت دینے کے لیے کہا۔ لڑکی نے اس کی سخت مخالفت کی اور اپنے والدین کو فون کیا۔ انھوں نے ملازمین کو تحریری شکل میں یہ دینے کو کہا کہ بینک کے اندر حجاب کی اجازت نہیں ہے۔

ویڈیو میں لڑکی کے والد بینک ملازمین سے پوچھتے ہیں ’’میں اور میری بیٹی ہر مہینے بینک آتے تھے۔ پہلے کبھی کسی نے اعتراض نہیں کیا تھا۔ وہ اب ایسا کیوں کر رہے ہیں؟ اگر کرناٹک میں ایسی کوئی چیز نافذ کی گئی ہے تو وہ اسے بہار میں کیوں نافذ کر رہے ہیں؟ کیا ان کے پاس بینکنگ نظام میں حجاب پر پابندی لگانے کے بارے میں کوئی تحریری ھدایت ہے؟‘‘ ملازمین نے انھیں واقعہ کی ریکارڈنگ بند کرنے کے لیے بھی کہا، جس سے خاتون اور اس کے گھر والوں نے انکار کر دیا۔

اس ویڈیو کو سوشل میڈیا پر اَپ لوڈ کیا گیا جس کے بعد معاملہ سرخیوں میں آ گیا۔ آر جے ڈی لیڈر تیجسوی یادو نے بھی اس ویڈیو کو ری ٹوئٹ کیا۔ تیجسوی نے وزیر اعلیٰ نتیش کمار کو ٹیگ کرتے ہوئے پوچھا ’’آپ اپنے عہدہ کو محفوظ کرنے کے لیے کس حد تک جا سکتے ہیں؟ میں سمجھتا ہوں کہ آپ نے اپنے نظریات، پالیسیوں، اخلاقی ذمہ داری اور وویک کو بی جے پی کے سامنے رہن رکھ دیا ہے لیکن آپ نے ملک کے آئین کا حلف لیا ہے۔ کم از کم آئین کا احترام کریں اور مبینہ ملازمین کو گرفتار کریں۔‘‘

دوسری جانب بجرنگ دل کے 28 سالہ کارکن کے قتل کے بعد حکم امتناعی کے درمیان کرناٹک کے شیو موگا ضلع میں منگل کے روز بھی صورت حال کشیدہ رہی جبکہ حالات کو قابو میں رکھنے کے لئے ریزو فورسز کو تعینات کیا گیا ضلع میں 23 فروری تک حکم امتناعی نافذ کیا گیا ہے۔قبل ازیں ہریش کے قتل کو لے کر مسلم جوانوں کے گھروں پر دھواوا بولا گیا اور بے دھڑک پکڑ دھکڑ کی گئی . ایک خبر کے مطابق 12 افراد کو حراست میں لیا گیا ہے۔

ریاست کے وزیر داخلہ اراگا گیانیندر نے منگل کے روز کہا کہ تین افراد کو پہلے ہی گرفتار کیا جا چکا ہے اور پولیس ان سے پوچھ گچھ کر رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس بات کی تحقیق کی جا رہی ہے کہ آیا یہ واردات حجاب تنازع کے پس منظر میں ہوئی، یا اس میں کوئی فرقہ پرست تنظیم ملوث ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم اس بات کی تحقیقات کر رہے ہیں کہ قتل کی مالی معاونت کس نے کی اور اسے گاڑی کس نے فراہم کی۔ پولیس سے کہا گیا ہے کہ وہ اس معاملے کی مکمل تحقیقات کرے۔ ہرش کے معاملے کے ساتھ ہی اس طرح کے قتل بند ہونے چاہئیں۔ معاملے کو منطقی انجام تک پہنچایا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ پولیس کو یہ بھی ھدایت دی گئی ہے کہ وہ بے گناہوں کو گرفتار نہ کرے۔ جو بھی ملوث ہے، اسے ہی پکڑا جائے۔ سینئر پولیس افسران یہاں جانچ اور حالات کی نگرانی کے لیے تعینات ہیں۔ میں شیوموگا کے لوگوں سے ہماری اپیل کے بعد امن برقرار رکھنے کے لئے شکریہ ادا کرتا ہوں۔ پتھراؤ کرنے والوں کے خلاف بھی کارروائی کی جائے گی

دریں اثنا، کانگریس کے قائم مقام صدر اور موجودہ رکن اسمبلی ستیش جارکی ہولی نے قتل کو ’’سیاست پر مبنی‘ قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ پچھلی بار بھی جب انتخابات قریب تھے تو ساحلی کرناٹک کے علاقے میں ہندو کارکنوں کو قتل کیا گیا تھا اور اب بھی وہی سب ہو رہا ہے۔