بدحال معیشت کے نڈھال عوام

399

حکومت نے 15 فروری کی شب پٹرول کی قیمت میں 12.03 روپے اور ڈیزل میں 9.53 روپے اضافہ کرتے ہوئے پٹرول کی قیمت 159.86 روپے اور ڈیزل کی فی لٹر نرخ 144.62 روپے کردیے۔ حکومت نے اس بہت بڑے اضافے کا جواز یہ بیان کیا کہ عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتیں 95 ڈالر فی بیرل ہوگئی ہیں اور دوسرے یہ کہ آئی ایم ایف کی شرائط کے مطابق ہر ماہ پٹرول لیوی میں 4 روپے کا اضافہ کرنا ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اوگرا کے وہ حکام جو قیمتوں میں اضافے کی سمری بناتے ہیں جو اسے منظوری کے لیے آگے بھیجتے ہیں وزارت خزانے کے اعلیٰ حکام جو اس کی منظوری دیتے ہیں اور وزیراعظم کو بھیجتے ہیں اور قیمتوں میں اضافے کے بعد وہ وزیر اور مشیر جو حکومتی اقدام کا دفاع کرتے ہیں ان سب پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوتا کیوں کہ تمام ارکان قومی و صوبائی اسمبلی، وزرا اور مشیران کرام، فوجی اور سیول افسران، سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے جج اور سرکاری کارپوریشنوں کے افسران کو سرکاری خزانے سے پٹرول ملتا ہے۔ دوسری طرف موٹر سائیکل اور گاڑیوں والے جو اپنی جیب سے اب مہنگا پٹرول لیں گے وہ اپنی محدود آمدنی میں آٹا، چینی، گھی، کوکنگ آئل، سبزیاں، گوشت، دودھ، دہی اور دیگر اشیا مہنگی خریدیں گے کیوں کہ پٹرول اور ڈیزل مہنگا ہونے سے ٹرانسپورٹ کا خرچہ بڑھ جاتا ہے جو بالآخر صارف کی جیب ہی سے نکالا جاتا ہے۔
اس سے پہلے حکومت بجلی کے نرخوں میں 3 روپے فی یونٹ اضافہ کرچکی ہے اور اگلے ماہ آئی ایم ایف کی ہدایت کے مطابق گیس کے نرخوں میں اضافہ کرنے کی تیاری ہے۔ اس سے تمام ہی مصنوعات کی پیداواری لاگت بڑھ جاتی ہے اور عوام کو مزید مہنگائی کا سامنا کرنا ہوگا جو پہلے ہی مہنگائی کے ہاتھوں عذاب میں ہیں۔ معیشت کی اندرونی صورت حال کے ساتھ اگر بیرونی تصویر بھی دیکھی جائے تو ہمیں نظر آتا ہے کہ سال رواں 2021-22 کے گزشتہ سات ماہ میں ملکی برآمدات کا حجم 17.7 ارب ڈالر رہا جب کہ درآمدات 45.5 ارب ڈالر تک چلی گئیں۔ اس طرح تجارتی خسارہ 29 ارب ڈالر رہا۔ امکان ہے کہ آنے والے مہینوں میں درآمدات میں کمی ہوگی جب کہ برآمدات میں اضافہ ہوگا۔ ان شاہ اللہ اور یہ ایک خوش آئند بات ہے کہ آئی ٹی سیکٹر میں برآمدات 3.4 ارب ڈالر تک پہنچ گئی اسی طرح حکومت چاول، ادویات اور موٹر سائیکلوں کی برآمد میں اضافہ کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ لیکن پھر بھی تجارتی خسارہ چالیس یا پینتالیس ارب ڈالر تک جاسکتا ہے۔ کیوں کہ آئل، مشینری اور کیمیکلز کی درآمدات تو بہرحال کرنی ہیں۔ اس طرح کرنٹ خسارہ 9 ارب ڈالر ہوگیا ہے ان دونوں کا اثر پاکستانی روپے پر جائے گا اور ہوسکتا ہے روپے کی قدر میں کمی آئے اس سے تمام درآمدی اشیا مہنگی ہوں گی جن میں پٹرول اور ڈیزل بھی شامل ہے۔ اس صورت حال کو بیرون ملک پاکستانیوں کی ترسیلات زر سے سہارا ملتا ہے اُن میں بلاشبہ اضافہ ہوا ہے مگر جنوری کے مہینے میں کمی آئی ہے۔ باہر سے رقم بھجوانے ہیں حکومت نے اقدامات کیے ہیں ان سے ترسیلات زر میں بہتری آئی ہے۔
لیکن اگر ہم دوبارہ اندرونی صورت حال کا جائزہ لیں تو گردشی قرضہ اور بیمار سرکاری ادارے جیسے دو عذاب پاکستانی معیشت کا خون چوس رہے ہیں گردشی قرضوں کا تعلق پاور سیکٹر سے ہے اور یہ قرضے بجلی کی ترسیل کرنے والے سرکاری اداروں کی کرپشن بدانتظامی اور نااہلی کے باعث ڈھائی ہزار ارب روپے تک پہنچ گئے ہیں جو 2018ء میں 450 ارب روپے تھے۔ ان قرضوں کی وجہ سے بار بار بجلی مہنگی کرنی پڑتی ہے دوسری طرف وہ سرکاری ادارے ہیں جو مسلسل نقصان میں چل رہے ہیں اور ان کے ملازمین کی تنخواہوں کے لیے سرکاری خزانے سے فنڈ جاری کرنا پڑتا ہے اور یہ وہ رقم ہے جو عوام کی صحت، تعلیم اور دوسرے سماجی سیکٹرز میں لگائی جاسکتی تھی۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ پاکستانی معیشت کی کشتی کو طوفانوں سے نکالے اور پاکستانی عوام چین و سکون کا سانس لے سکیں۔