معیشت کی بہتری کے بلند بانگ دعوے

840

پاکستان میں کاروباری، مالیاتی اور معاشی سرگرمیوں کا تخمینہ لگانے کے معاملے میں نیشنل اکائونٹس کمیٹی نے ایک اہم تبدیلی کی ہے جس سے پاکستان کی پوری معاشی و اقتصادی تصویر بدل گئی ہے اور حکومت کو بڑے بڑے دعوے کرنے کا موقع مل گیا ہے اور وہ یہ ہے کہ معیشت کا حجم اور معاشی نمو کے حوالے سے بنیادی سال (Base Year) 2005-06 سے بدل کر 2015-16 کردیا ہے۔ علم شماریات کی رو سے وہ تمام اعداد و شمار جو بار بار بدلتے رہتے ہیں ان کا صحیح حساب لگانے کے لیے ایک بنیادی سال طے کیا جاتا ہے اور جیسے جیسے وقت آگے بڑھتا ہے تیزی سے بدلتی ہوئی دنیا میں کاروباری اور معاشی حالات میں تغیر، پھیلائو اور وسعت آجاتی ہے۔ چناں چہ بنیادی سال آگے بڑھایا جاتا ہے تاکہ نئے آنے والے حالات اور معاملات بھی حساب و کتاب کے دائرے میں آسکیں۔ مثلاً سال 2020-21ء میں پرانے حساب سے پاکستانی معیشت کا حجم 246 ارب ڈالر تھا اور نئے بنیادی سال کے مطابق اب 347 ارب ڈالر ہوگیا ہے یعنی 16.5 فی صد کا اضافہ ہوگیا ہے۔ اسی طرح پہلے معاشی نمو کی شرح 3.9 فی صد بتائی جارہی تھی وہ اب 5.6 فی صد ہوگئی ہے۔ اسی لیے حکومت کی جانب سے ایسے بیانات سننے میں آرہے ہیں کہ معیشت صحیح سمت میں جارہی ہے۔ دنیا ہماری معاشی پالیسیوں کی حمایت کررہی ہے۔نئے بنیادی سال اختیار کرنے کے باعث کچھ مسائل بھی کھڑے ہوگئے ہیں۔ مثلاً مجموعی قومی پیداوار کے لحاظ سے ٹیکسوں کی شرح جو پہلے 9.6 فی صد تھی اب 8.5 فی صد رہ گئی ہے۔ اسی طرح صنعتی شعبہ کا معیشت میں حصہ 21 فی صد سے کم ہو کر 19.5 فی صد رہ گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ صنعتی شعبہ پاکستان میں سکڑ رہا ہے جب کہ زراعت اور خدمات کے شعبے آگے بڑھ رہے ہیں۔ اسی طرح حکومت پر قرضوں کا بہت بڑا بوجھ تھا جو پاکستانی معیشت کا 83.5 فی صد تھا، وہ اب 71.8 فی صد رہ گیا ہے اس طرح قرضوں کا دبائو کم ہوگیا ہے۔ لیکن معاشی نمو کی شرح 5.6 فی صد ہوجانے کے بعد حکومت کو آرام سے نہیں بیٹھ جانا چاہیے۔ بے شمار ایشوز ایسے ہیں جن کے لیے فوری طور پر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ مثلاً کرنٹ اکائونٹ خسارہ جو چھے ماہ میں 9.1 ارب ڈالر ہوگیا ہے اور اندازہ ہے کہ سال کے اختتام پر 16 سے 18 ارب ڈالر ہوجائے گا حالاں کہ حکومت کا ٹارگٹ 6 سے 7 ارب ڈالر کا تھا کرنٹ اکائونٹ خسارہ بڑھنے سے ملکی کرنسی پر دبائو پڑتا ہے اور روپے کی قدر مزید کم ہوسکتی ہے۔ منی بجٹ کا ایک مقصد درآمدات میں کمی کرنا تھا لیکن ابھی تک کمی نظر نہیں آرہی۔
اسی طرح مہنگائی نے عوام کو سخت پریشان کیا ہوا ہے اور دنیا میں پاکستان تیسرا مہنگا ترین ملک ہے۔ تازہ ترین مانیٹری پالیسی بیان میں اسٹیٹ بینک نے کہا ہے کہ مہنگائی کی ایک اہم وجہ مڈل مین کی منافع خوری ہے، یہاں پھر معاملہ گورننس اور قانون کی عملداری کا ہے جو سول اداروں کا کام ہے۔ دوسری طرف وفاقی وزرا بیان دیتے ہیں کہ مہنگائی سے دکانداروں اور تاجروں کو بہت فائدہ ہوا، پتا نہیں اس بیان کا کیا مطلب ہے۔ اسی طرح تعلیم اور صحت کے شعبے انتہائی زبوں حالی کا شکار ہیں۔ پاکستان اُن غریب اور پسماندہ ممالک میں شامل ہے جو ان شعبوں پر سب سے کم خرچ کرتے ہیں۔ اسی وجہ سے شرح خواندگی 70 سال کے عرصے میں 60 فی صد تک پہنچی ہے یعنی ملک کی چالیس فی صد آبادی مکمل ناخواندہ اور اَن پڑھ ہے۔کرپشن کا خاتمہ عمران خان کے منشور کا ایک اہم نکتہ تھا لیکن ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی حالیہ رپورٹ حکومت کی ناکامی کا اعلان کررہی ہے کہ جس میں پاکستان کی درجہ بندی اب اور کم ہوگئی ہے۔ حکومت میں بیٹھے ہوئے تمام صاحبانِ اقتدار کی ذمے داری ہے ان مسائل میں سنجیدہ ہوجائیں اور عوام کے مسائل حل کریں، وقت بہت کم رہ گیا ہے۔