آذربائیجان پاکستانی مصنوعات سے فائدہ اٹھائے ، ناصر حیات

175
ایف پی سی سی آئی کے صدر میاں ناصر حیات مگوں پاکستان میں آذربائیجان کے سفیر خضرفرہادوو کو فیڈریشن کی یادگاری شیلڈ پیش کر رہے ہیں

کراچی(اسٹاف رپورٹر)ایف پی سی سی آئی کے صدر میاں ناصر حیات مگوں نے تاجر برادری کی جانب سے پاکستان میں آذربائیجان کے سفیر خضرفرہادوو(Khazar Farhadov) کی فیڈریشن ہا ئوس آمد پر دوطرفہ تجارت اور سرمایہ کاری کے امکانات اور دائرہ کار پر تبادلہ خیال اور تفصیلی پریزنٹیشن کوسراہا ہے۔ناصر حیات مگوںنے کہا کہ بزنس ٹو بزنس اور پیپل ٹوپیپل روابط، تعلقات اور مشترکہ سرگرمیاں بالآخر دو طرفہ تجارت، سرمایہ کاری اور اقتصادی تعاون میں تبدیل ہوتی ہیں۔ انہوں نے بزنس ٹو بزنس تعاون کو تیز کرنے کے لیے دونوں ممالک کے اعلیٰ ترین وفاقی چیمبرز کے درمیان ایک ایم او یو کی ضرورت پر زور دیا۔میاں ناصر حیات مگوں نے کہا کہ آذربائیجان پاکستان سے عالمی معیار کی ٹیکسٹائل مصنوعات، پھل، چاول، سرجیکل سامان، دوائیاں اور آئی ٹی کی خدمات سے مسابقتی نرخوں پر فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ جبکہ کارگو ٹرکوں کے ذریعے ٹی آئی آر کنونشن کے تحت پاکستان- آذربائیجان-ترکی کے درمیان گیم چینجر زمینی کارگو ٹرانسپورٹ روٹ کا آغاز ہو گیا ہے۔ انہوں نے دونوں طرف کے تاجروں پر زور دیا کہ وہ ٹی آئی آرکی جانب سے فراہم کردہ کم خرچ، وقت کی بچت اور قابل اعتماد متبادل کا بھرپور استعمال کریں؛ کیونکہ کارگو ٹرک صرف 5 دنوں میں پاکستان سے آذربائیجان پہنچ سکتے ہیں۔خضرفرہادوو نے پاکستان کے اعلیٰ کاروباری، تجارتی اور صنعتی رہنماؤں کو آگاہ کیا کہ آذربائیجان پاکستانی سرمایہ کاروں کا آذربائیجان کے خصوصی اقتصادی زونز میں سرمایہ کاری کرنے کا تہہ دل سے منتظر ہے جو کہ کم لاگت زمین، ٹیکسوں کی کم شرح، سرمایہ کاری کا تحفظ، ریگولیٹری مداخلت سے آزادی ، قابل اعتماد یو ٹیلیٹیزاور تمام بنیادی ڈھانچے کی موجودگی سے مزین ہیں؛ بشمول، سڑک، ریل اور ہوائی اڈے کا نیٹ ورک۔ایف پی سی سی آئی کے نائب صدر اطہر سلطان چاولہ نے کہا کہ دونوں برادر ممالک خام اور پراسیسڈ خوردنی مصنوعات کے باہمی تجارتی حجم میں اضافہ اور علم کے تبادلے کے ذریعے ایک دوسرے کی فوڈ سیکیورٹی کا باعث بن سکتے ہیں۔ انہوں نے پاکستانی تاجر برادری کے لیے اوپن ڈور اورپُر سہولت ویزا نظام کا مطالبہ بھی کیا؛ تاکہ اقتصادی اور تجارتی سیاحت کو فروغ دیا جا سکے اور تجارت، سرمایہ کاری اورجوائنٹ وینچرزکے مواقع کی بہتر تلاش کو ممکن بنایا جا سکے۔انجینئر ایم اے جبار سابق نائب صدر ایف پی سی سی آئی نے کہا کہ پاکستانی سرمایہ کار اور کاروباری افراد ضرور سرمایہ کاری کے لیے تیار ہوں گے ؛اگر واقعی کوئی غیر ضروری سرکاری اور ریگولیٹری مداخلت اور معائنہ نہ ہو اور پارٹنرشپ اور جوائنٹ وینچرزکے منصوبے بنائیں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ بدقسمتی سے پاکستان میں صنعت کاروں کو مختلف سرکاری وزارتوں، محکموں اور اداروں سے کل ملا کے 57 ریگولیٹری معائنے تک برداشت کرنے پڑ جاتے ہیں اور یہ قیمتی وقت کے بہت زیادہ زیاں کا با عث بنتا ہے ۔