لیبر قوانین پر عملدرآمد کا ذمہ دار کون؟

157

جب سے موجودہ انصاف سے بالاتر حکومت نے قیادت سنبھالی ہے تب سے مزدوروں، تاجروں اور کسانوں کے مسائل میں اضافہ ہوتا جارہا ہے، اگر مزدور بیماری کی وجہ سے چھٹی کرلیتا ہے تو یومیہ اجرت کاٹ لی جاتی ہے، ان کے لیے ایسے حالات بنا دیے جاتے ہیں کہ وہ بغیر تنخواہ لیے خود ہی ملازمت چھوڑ دے، یہ پرائیویٹ کمپنیاں صحیح معنوں میں لیبر قوانین کی دھجیاں اُڑا رہی ہیں کیوں کہ نہ تو وہ کم از کم تنخواہ کے مطابق اپنے ملازموں کو تنخواہیں دے رہی ہیں، نہ تو 8 گھنٹے کام کرنے کے اصول پر عمل کررہی ہیں اور نہ ہفتہ وار چھٹی کے قانون پر عملدرآمد کررہی ہیں، ایسی صورتحال میں ان اداروں کے مزدوروں کی کیا حالت ہوگی، اس کا اندازہ آپ خود لگا سکتے ہیں، ہر وقت ان کے سروں پر ملازمت ختم ہونے کی جو تلوار لٹکتی رہتی ہے وہ ان کی پریشانیوں میں اضافہ کے لیے کافی ہے، ٹھیکیداروں نے جو اپنی سہولت کے مطابق لیبر قوانین بنائے ہوئے ہیں ان کو کوئی پوچھنے والا نہیں، اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک ورکر کو
جو کسی سرکاری یا پرائیویٹ ادارے میں ملازمت کررہا ہے۔ کیا اس ادارے کی انتظامیہ نہیں جانتی کہ وہ اس کا استحصال کیسے کر رہی ہے اور ایسا وہ کیوں کر رہی ہے؟ اس کا جواب ہم سب کے پاس ہے کہ اس حوالے سے جو لیبر قوانین بنے ہوئے ہیں پہلی بات تو وہ کمزور ہیں، دوسری یہ کہ ان پر عملدرآمد نہیں ہوتا اور تیسری یہ کہ اس کا مدعی کون بنے گا کیوں کہ مزدور میں اتنی ہمت نہیں ہوتی ہے کہ وہ اپنے جائز حق کے لیے آواز بلند کرسکے، جس مزدور نے انتظامیہ کے خلاف آواز بلند کی ہے اس کو ملازمت سے برطرف کر دیا جاتا ہے اور اگر وہ لیبر کورٹ کی طرف اپنے حقوق لینے جاتا ہے تو وہاں طویل انتظار میں اس کی ہمت جواب دے جاتی ہے، اس کا ذمہ دار کون ہے؟ کیا موجودہ حکومت اس کی ذمہ دار ہے؟ یا سابق حکومت؟ کیا سیاسی جماعتیں ہیں؟ جو مزدوروں کے حقوق کا نعرہ تو لگاتی ہیں لیکن ان کے لیے کچھ نہیں کرتی، مزدور طبقہ ہر نئی آنے والی حکومت سے بہتری کی امید رکھتا ہے لیکن ہر حکومت مزدوروں کو مایوس کرکے جاتی ہے بلکہ ان ہی حکومتوں نے انہیں ٹھیکیداری نظام کی طرف کر دیا ہے، مزدوروں کے لیے عالمی دن تو منایا جاتا ہے لیکن ملک کے مزدور کی پریشانی کو دور نہیں کیا جاتا ہے۔