دل کی پرورش

322

کچھ لوگ اپنے بچوں کی ہر خواہش پوری کرتے ہیں، اور گھر کو تفریح کے سامانوں سے بھر دیتے ہیں، ان کی دلیل یہ ہوتی ہے کہ دوسرے بچوں کو دیکھ کر ہمارے بچوں میں کسی طرح کا احساس کمتری پیدا نہ ہو، کچھ لوگ بچوں کو بہت سے سامانوں سے یہ سوچ کر محروم رکھتے ہیں کہ ان کے اندر احساس برتری پیدا نہ ہوجائے، یہ دونوں طریقے درست نہیں ہیں۔ دل کو احساس کمتری اور احساس برتری دونوں سے بچانا ضروری ہے، لیکن اس کے لیے دل کے اندر جاکر تبدیلی لانا ہوگی، دل میں اعلی قسم کی قدریں استوار کرنی ہوں گی۔ باہر کی کارروائیاں زیادہ کارگر نہیں ہوں گی۔ دل کے احوال کو درست کرنے کے لیے دل کو مخاطب کرنا ہوتا ہے، صرف جسم کو مخاطب کرکے ہم دل کے احوال درست نہیں کرسکتے۔ ہوسکتا ہے آپ بچے کو طرح طرح کی لذیذ ترین چیزیں کھلاتے رہیں، اور وہ نہ آپ کا شکر گزار بنے اور نہ اللہ کا شکر گزار بنے، کیوں کہ آپ نے اسے کھلایا تو بہت زیادہ، لیکن اس کے دل میں شکر کے پودے نہیں لگائے۔
بچے کو اپنے دل کی سیر کرنا سکھائیں۔ وہ خود اپنے دل کی کمزوریوں اور بیماریوں سے واقف ہونا اور ان کا علاج کرنا سیکھے۔ اس کو معلوم ہوجائے کہ دل کی خوبیاں کیا ہوتی ہیں اور خامیاں کیا ہوتی ہیں؟ دل کے حوالے سے بچوں کے ساتھ کھل کر گفتگو کریں۔ جس طرح بچوں کو یہ بتاتے ہیں کہ گرم کے بعد ٹھنڈا مضر ہوسکتا ہے، زیادہ چکنائی کھانا نقصان دہ ہوتا ہے، اور تمباکو صحت کے لیے گھاتک ہوتی ہے، اسی طرح یہ بھی بتائیں کہ گھمنڈ دل کے لیے گھاتک ہوتا ہے، اور ناشکری سے دل کی موت ہوجاتی ہے۔ بچے کے دل کی صحیح نشوونما کی ذمے داری آپ قبول کریں، اور پھر اس کے اندر حفظان صحت کی فکر پیدا کردیں، اس طرح کہ وہ زندگی بھر جسم کے ساتھ ساتھ اپنے دل کی صحت کا بھی خیال رکھے۔
تقوی دل میں ہوتا ہے، اللہ کے رسولؐ نے ایک مرتبہ اپنے سینے کی طرف اشارہ کرکے تین بار کہا: ’’تقوی یہاں ہوتا ہے‘‘۔ بچوں کے دل کی پرورش میں اس حدیث پاک سے بڑی رہنمائی ملتی ہے۔ جب تقوی دل میں ہوتا ہے، تو اپنے بچے کے دل میں تقوی کا پودا لگانا، اور مسلسل آبیاری کرکے اسے ایک تناور درخت بنانا ہماری سب سے بڑی ذمے داری ہوتی ہے۔ بچہ اللہ سے اتنی محبت کرے، کہ اللہ کو ناراض نہ کرنا اس کی سب سے بڑی فکر ہوجائے۔ بچہ اللہ کی ناراضگی سے ڈرے، اس سے زیادہ جتنا وہ اپنے والدین کو ناراض کرنے سے گھبراتا ہے۔ بچے کو اللہ کی نگرانی کا ہر وقت احساس رہے، کہ کوئی نہیں مگر اللہ تو دیکھ رہا ہے، اور اللہ کی پکڑ سے کوئی بھاگ نہیں سکتا، اور اللہ کی پکڑ بہت سخت ہوتی ہے۔ دل میں تقوی پیداکرنے کا مطلب دل کی حفاظت کا بہترین انتظام کردینا ہے۔
دل کی اپنی زبان ہوتی ہے، وہی زبان دل پر اثر کرتی ہے۔ اگر دل کی زبان سے نصیحت نہیں کریں گے تو نصیحتیں ناگوار گزریں گی، اور دل پر ان کا الٹا اثر ہوگا۔ دل کی زبان استعمال کرنے کے نئے تجربات کرتے رہنا چاہیے، میں نے اپنے بچوں کے ساتھ ایک تجربہ کیا ہے، دسترخوان پر جب سب بیٹھ جاتے ہیں تو سب کی پلیٹوں میں کھانا میں نکالتا ہوں، جو چیزیں مزے دار مگر تھوڑی ہوتی ہیں، وہ سب میں برابر برابر تقسیم کردیتا ہوں، بسا اوقات دسترخوان پر میرے بچوں کے علاوہ دوسرے بچے بھی ہوتے ہیں، لیکن میں سب کا برابر حصہ لگاتا ہوں، مہمانوں اور بزرگوں کا خصوصی حصہ ہوتا ہے، اور اس تقسیم میں اکثر ایسا ہوتا ہے کہ مجھے نہیں ملتا ہے یا سب سے کم ملتا ہے، ایسی صورت میں سب بچے مجھ سے ہمدردی کا اظہار کرکے اپنے حصے میں سے مجھے دینا چاہتے ہیں، مجھے ان کی یہ ادا بہت اچھی لگتی ہے۔ کم وبیش دس سال سے یہ سلسلہ جاری ہے، اس امید پر کہ شاید میرے اس چھوٹے سے عمل کو بار بار دیکھ کر یہ بچے سب کے ساتھ انصاف کرنے اور اپنے اوپر ایثار کرنے کی اعلی قدروں کو سیکھ لیں۔ آپ بھی تجربے کریں۔ اور اپنے کامیاب تجربات کوافادہ عام کے لیے شائع کریں۔
دل کی پرورش پر دھیان دینے والوں کے لیے بہترین اسوہ اللہ کے رسولؐ کا ہے، ایک مرتبہ عبداللہ بن عباسؓ سواری پر آپؐ کے پیچھے بیٹھے تھے، عمر زیادہ نہیں دس سال کے آس پاس رہی ہوگی، آپ نے انہیںکچھ نصیحتیں کیں۔ یہ نصیحتیں کیا تھیں، ایمان اور توکل کے پودے تھے جو ان کے دل میں لگادیے تھے۔ آپؐ نے فرمایا: ’’اے لڑکے! اللہ کا خیال رکھو، اللہ تمہارا خیال رکھے گا، اللہ کا خیال رکھو اللہ کو اپنی طرف پاؤ گے، اور جب مانگو تو اللہ سے مانگو، اور جب مدد کے لیے پکارو تو اللہ کو پکارو، سمجھ لو کہ سارے لوگ مل کر تمہیں کچھ فائدہ پہنچانا چاہیں تو نہیں پہنچا سکتے، مگر بس اتنا ہی جو اللہ نے تمہارے لیے لکھ دیا ہے، اور جان لو کہ سارے لوگ مل کر تمہیں نقصان پہنچانا چاہیں تو نہیں پہنچا سکتے مگر بس اتنا جتنا کہ اللہ نے لکھ دیا ہے۔ قلم اٹھائے جا چکے ہیں، اور صحیفے سوکھ چکے ہیں‘‘۔ اس نصیحت کے ایک ایک لفظ پر غور کریں، اور سوچیں کہ نبی پاکؐ نے چند لمحوں میں اور چند جملوں سے ایک کم عمر لڑکے کے دل کی کتنی اعلی تربیت کردی تھی۔ اگر ہم اپنے بچوں کے دلوں کی نشوونما ان عظیم اور عالی شان قدروں اور عقیدوں کے ساتھ کریں، تو ان کی شخصیت کی بہترین تعمیر کا سامان کریں گے، اور اس طرح واقعی ان کے محسن بن جائیں گے۔
OOO