جنوری میں شرح سود میں مزید اضافہ متوقع ہے۔ میاں زاہد حسین 

285

نیشنل بزنس گروپ پاکستان کے چیئرمین، پاکستان بزنس مین اینڈ انٹلیکچولز فورم وآل کراچی انڈسٹریل الائنس کے صدراورسابق صوبائی وزیرمیاں زاہد حسین نے کہا ہے کہ مرکزی بینک نے پچیس دن میں شرح سود میں دوبارہ اضافہ کرتے ہوئے اسے ایک فیصد بڑھا کر 9.75 فیصد تک پہنچا دیا ہے تاکہ مہنگائی اورکرنٹ اکا¶نٹ کے خسارے پرقابو پایا جاسکے اورادائیگیوں کا توازن بہتر بنایا جا سکے۔ شرح سود میں اضافہ کا ایک مقصد بڑھتی ہوئی درآمدات پر قابو پانا بھی ہے جوحاصل کرلیا گیا تو روپیہ کسی حد تک سنبھل جائے گا۔ میاں زاہد حسین نے کاروباری برادری سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ عالمی منڈی میں کروڈ آئل کی گرتی قیمتوں کے پیش نظر پاکستان میں شرح سود میں اضافہ نہ کیا جاتا تو صنعت اور تجارت کے لیے بہتر ہوتا، شرح سود میں اضافہ سے اقتصادی سرگرمیوں کو دھچکہ لگے گا اورمعیشت سکڑنے کا عمل تیزہوجائے گا جبکہ روزگار میں بھی کمی واقع ہو گی۔ میاں زاہد حسین نے کہا کہ شرح سود میں اضافہ کے باوجود مہنگائی کم نہیں ہوگی بلکہ بڑھے گی جبکہ کرنٹ اکا¶نٹ خسارہ بھی کم نہیں ہوگا بلکہ اسٹیٹ بینک کے اندازوں سے زیادہ ہوجائے گا حکومت کو مذید قرضے بھی لینا ہونگے جبکہ سابقہ اور نئے قرضوں پر سود بھی نئی شرح سے دینا ہوگا۔ مرکزی بینک کی جانب سے منی بجٹ کے بعد جنوری میں ایک بار پھر شرح سود میں اضافہ کا امکان موجود ہے۔ بجلی، پٹرولیم مصنوعات،گھی، آٹے، دودھ اوردیگر اشیاءکی قیمتوں میں مسلسل اضافہ سے مہنگائی مذید بڑھے گی جبکہ گھروں کے کرائے بھی بڑھ رہے ہیں جس سے کرائے پر رہنے والوں کی مشکلات میں بھی اضافہ ہوگا۔ مرکزی بینک کا خیال ہے کہ 2022 کے آخری چھ ماہ میں جاری حسابات کا خسارہ، تجارتی خسارہ اورمہنگائی کم ہوجائے گی جوایک خوش فہمی بھی ہوسکتی ہے۔ میاں زاہد حسین نے مذید کہا کہ ملکی معیشت کی حالت ایسی نہیں ہے کہ برآمدات اورترسیلات میں اضافہ سے اسے بہتربنایا جاسکے۔ اس کے لئے حکومت کو ترقیاتی منصوبوں میں کئی سوارب روپے کی کٹوتی کرنا ہوگی جبکہ اپنے اخراجات بھی کم کرنے ہونگے جوحکومت کے لئے ایک مشکل آپشن ہے۔ ان دونوں آپشنز پرعمل ہوبھی گیا تواسے بین الاقوامی منڈی سے اربوں ڈالر کے قرضے لینا ہونگے تاکہ ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچایا جاسکے۔