متحرک یونین ہی لیڈی ہیلتھ ورکرز کو حقوق دلا سکتی ہے،فرحت پروین

228

نیشنل آرگنائیزیشن فار ورکنگ کمیونیٹیز (نائوکمیونیٹیز) نے آکسفیم کینیڈا کے تعاون سے سول سوسائٹی آرگنائیزیشنز، ٹریڈ یونینز اور لیڈی ہیلتھ ورکرز کی تیسری اسمبلی کا انعقاد 2 دسمبر کو آرٹس کونسل آف پاکستان، کراچی میں کیا۔ آل لیڈی ہیلتھ ورکرز پروگرام یونین کو متحرک خواتین کی سول سوسائٹی اورٹریڈ یونین کے ساتھ ساتھ متعلقہ اداروں سے رابطہ کاری (نیٹ ورکنگ ) کو بڑھانے کو حوالے سے منعقدہ پروگرام میں انسانی حقوق کی تنظیموں، ٹریڈ یونینز اور سول سوسائٹی رہنمائوں نے خطاب کیا اورلیڈی ہیلتھ ورکرز نے شرکت کی۔ تقریب کا انعقاد عالمی مہم 16 days of Activismکے تسلسل میں بھی کیا گیا۔ جس میں کوویڈ کے ایس او پیز کو مد نظر رکھتے ہوئے شرکاء کو مدعو کیا گیا تھا۔
اجلاس سے سینئر ٹریڈ یونین رہنما اور ایگزیکٹیو ڈائریکٹر پائلر کرامت علی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مجموعی طور پر ٹریڈ یونینز روبہ زوال ہیں لیکن ہوم بیسڈ ورکرز یونین اور لیڈی ہیلتھ ورکرز یونین جو خواتین کی اکثریت پر مشتمل ہیں، نے ٹریڈ یونینز کو ایک امید دلائی ہے۔ خواتین کی معاشرتی و سماجی سطح پر برابر کی حیثیت تسلیم کروانے اور قوانین کے تحت حقوق حاصل کرنے کے لیئے خواتین کو مشترکہ جدوجہد کا راستہ اپنا ہوگا اور ملک گیر اتحاد کی تشکیل ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ خواتین کے ساتھ مردوں کو اپنا رویہ بدلنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے حکومت سے بیروزگاری الائونس دینے کا مطالبہ کیا۔
پروگرام میں لیڈی ہیلتھ ورکرز کی صدر محترمہ بشریٰ آرائیں نے اس امر پر تشویش کا اظہار کیا کہ 2013 میں سپریم کورٹ کے احکامات کے باوجود اب تک لیڈی ہیلتھ ورکرز کا سروس اسٹرکچر نافذ نہیں کیا گیا اور نہ ہی خالی آسامیوں پر بھرتی کے قوائد و ضوابط تشکیل دیئے گئے۔ 2012 سے ریٹائرڈ یا وفات پا جانے والی خواتین ورکرز کو پنشن اور گریجویٹی ادا نہیں کی جارہی اور نہ ہی 18 سال پورے کرنے کے باوجود ترقی و اپ گریڈیشن کی گئی ہے۔ لیڈی ہیلتھ ورکرز کے حالت کار میں بہتری کے اقدامات بھی نہیں کیے جارہے۔ یونین مسائل کے حل اور قانون سازی کے لیے مسلسل جدوجہد کر رہی ہے۔ ورکرز بھی بڑی تعداد میں ممبر شپ حاصل کر رہے ہیں۔ ہم ریفرنڈم میں کامیابی کے بعد بطور اجتماعی سودے کار تمام مسائل حل کروائیں گے۔ اسی جدوجہد کو جاری رکھتے ہوئے ہم نے سروس اسٹرکچر کے عدم نفاز پر توہین عدالت کی درخواست دائر کی ہے۔ انھوں نے سروس اسٹرکچر اورمتوقع ریفرنڈم کے حوالے سے یونین کی تیاری اور صورت حال سے بھی شرکاء کو آگاہ کیا۔
نائو کمیونٹیز کی طرف سے ادارے کی سربراہ محترمہ فرحت پروین نے یونین کی معاونت، تربیتی نشستوں اور آگاہی (لیبر لاز تعلیمی پروگرام ) پروگرامز سے شرکا کو متعارف کرواتے ہوئے لیڈی ہیلتھ ورکرز کی سیاسی طاقت اور حیثیت کو اجاگر کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ خواتین کو دونوں محازوں پر اپنی مجموعی حالت کے سدھار کے لیے جدو جہد کرنی ہوگی وہ گھریلو خانگی زندگی ہو یا سماجی حیثیت۔ انہوں نے روزنامہ جسارت کی مزدور خدمات کو سراہا۔
روزنامہ جسارت کے صفحہ محنت کے انچارج قاضی سراج نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جسارت مزدوروں کی بلاامتیاز خدمت کررہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ متحد اور منظم ہو کر لیڈی ہیلتھ ورکرز اپنے مسائل حل کرواسکتی ہیں۔ مزدور رہنما مرزا مقصود نے کہا کہ ٹریڈ یونین جمہوری روایات کو پروان چڑھائیں۔ حقوق حاصل کرنے کے لیے طاقت پیدا کریں۔ مزدور رہنما سعید بلوچ نے کہا کہ مزدور تحریک کو مضبوط کرنے کے لیے خواتین اور مردوں کو متحد ہو کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔
پیپلز لیبربیورو کے صدر حبیب جنیدی، سندھ کمیشن آن دی اسٹیٹس آف وومن کی چیئرپرسن محترمہ نزہت شیریں نے کہا کہ خواتین علم حاصل کرکے اپنی آواز موثر کرسکتی ہیں۔ سینئر رہنما جونیئر افراد کی حوصلہ افزائی کریں۔ اچھائیوں کو سامنے رکھتے ہوئے اختلاف کم سے کم کریں۔ مزدور تحریک اور یونین میں خواتین آگے بڑھ کر کام کریں۔
ریذیڈینشل ڈائریکٹر عورت فائونڈیشن محترمہ مہناز رحمان، پاکستان فشر فوک فورم کے جنرل سیکرٹری سعید بلوچ، ٹریڈ یونیینسٹ مرزا مقصود احمد اور ممبر بورڑ نائو کمیونیٹز محترمہ شہناز احد نے بھی اجلاس سے خطاب کیا۔ تقریب کے اختتام پر یونینیز کی متحرک کارکنان اور معاون سماجی کارکنان کو ایوارڈز سے نوازا گیا۔ پروگرام کا آغاز تلاوت کلام پاک سے شمیم اختر نے کیا۔