پاکستان عالمی مالیاتی ادارے کے نرغے میں پھنس چکا ہے

325

بجلی کے شعبے کاگردشی قرضہ تیز رفتاری سے بڑھتے ہوئے ڈھائی ٹریلین روپے تک پہنچ کر معیشت کے لیے خطرہ بن گیا ہے جسے کم کرنے کے لیے سیاسی مفادات کو پس پشت ڈال کر فیصلے کرنے ہوں گے۔ گزشتہ کئی سال کے دوران بجلی کے شعبے کاگردشی قرضہ کم کرنے کے لیے جو بھی اقدامات کیے گئے ہیں ان سے قرضہ تو کم نہیں ہوا البتہ عوام اور کاروباری برادری کا بوجھ بڑھا ہے ۔ بجلی کے شعبے کا گردشی قرضہ ملک کی انرجی سیکورٹی کے لیے بڑا خطرہ بنا ہوا ہے جس کی وجوہات کو ختم کرنے کی کوشش نہیں کی جا رہی ہے۔ سینکڑو سو ارب روپے کی بجلی کی چوری کو نظر انداز کیا جا رہا ہے، بجلی کی تقسیم و ترسیل کے دوران بھاری نقصانات کا سلسلہ جاری ہے جبکہ اربوں روپے کے بلوں کی ریکوری کے بجائے اس کا بوجھ بھی بل ادا کرنے والے صارفین پر ڈالا جا رہا ہے۔ آئی پی پیز سے نئے معاہدے، بجلی نرخ میں ایڈجسٹمنٹ، بجلی کے ٹیرف میں اضافہ اورنیپرا ایکٹ میں ترمیم سمیت تمام اقدامات کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا ہے کیونکہ حکومت نے گزشتہ تین سال میں اس سلسلہ میں کوئی واضح پالیسی اختیار ہی نہیں کی۔ جب تک کوئی واضح لائحہ عمل اختیار نہیں کیا جائے گا گردشی قرضہ معیشت کی بنیادیں ہلاتا رہے گا۔ بجلی کے علاوہ گیس سیکٹر کی صورتحال بھی تشویشناک ہے۔ سرکاری گیس کمپنیوں کا گردشی قرضہ چھ سو ستر ارب روپے سے تجاوز کر گیا ہے ۔ سوئی نادرن کا گردشی قرضہ چار سو ارب روپے جبکہ سوئی سدرن دو سو ستر ارب روپے کے گردشی قرضہ میں پھنس گئی ہے اور ان دونوں کمپنیوں کا مجموعی گردشی قرضہ جلد سات سو ارب روپے سے تجاوز کر جائے گا۔ حکومت نے کچھ لو گوں کی نااہلی کی سزا عوام اورصنعتکاروں کو دیتے ہوئے اس صنعت کا گیس ٹیرف بھی بڑھا دیا ہے جو اپنے استعمال کی بجلی خود بنا رہی ہے جس سے پیداوار اور برآمدات دونو ںمتاثر ہو رہی ہیں ۔ گیس کے ٹیرف میں اضافہ کی وجہ حکومت کی جانب سے بروقت ایل این جی نہ خریدنا اور اب انیس اور بیس ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو کے حساب سے ایل این جی کی خریداری ہے جس سے قومی خزانے پر اربوں روپے کا غیر ضروری بوجھ پڑا ہے۔
ایک جانب حکومت اور دوسری جانب مصنوعی مہنگائی کے بم گرانے والے طاقتور مافیاز نے عوام کی زندگی اجیرن کردی ہے، حکومت اور اسکے ادارے ذخیرہ اندوزوں اور ناجائز منافع خوروں کے ہاتھوں مکمل طور پر بے بس ہوچکے ہیں، بدعنوانی کا زہر پورے معاشرے میں پھیل گیا ہے، کرپٹ طبقہ ملک کی ترقی اور خوشحالی کو گھُن کی طرح کھارہا ہے، عوام اذیتناک اور ہولناک مہنگائی کے ہاتھوں سخت مایوسی کا شکار ہیں، انھوں نے علمائے کرام سے اپیل کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملک کو بدترین حالات اور سود کی نحوست سے نکالنے کے لیے قوم کی رہنمائی فرمائیں ، ملکی معیشت دانوں اور سیاستدانوں سمیت تمام طبقات کی صلاحیتوں کی آزمائش کا وقت آگیا ہے،ملک کے لیے تمام تر اختلافات بھلاکر معیشت کی ڈوبتی کشتی کو بچانے کی تدبیر کریں ، انھوں نے کہا کہ مہنگائی غریب عوام کیلئے عذاب بن گئی،معاشی موت سر پر کھڑی ہے،غریب طبقہ علاج معالجہ، تعلیم سمیت زندگی کی تمام آسائشیں پسِ پشت ڈال کر دو وقت کی روٹی کی جدوجہد میں مصروف ہے، اس سلسلے میں معاشی مشکلات سے نجات کیلئے آئی ایم ایف کے دلدل سے نکلنے کی تدبیر کی جائے،عوام کی مدد سے سودی قرضوں سے نجات کی حکمت عملی بنائی جائے، فوری طور پر ٹیکس اصلاحات ممکن نہیں چھوٹے اور درمیانے کاروباری طبقے کیلئے فکس ٹیکس سسٹم متعارف کروایا جائے جس کے تحت ہر کوئی اپنے اپنے حصے کا ٹیکس ادا کرے، اس مشکل ترین وقت میں منتخب نمائیندے بھی اپنے حصے کی قربانی دیںاور ملکی خزانے سے حاصل مراعات اور سہولتیں واپس کردیں، مہنگائی غریب عوام کیلئے سوہان روح بن گئی،اس سے قبل کہ غریب طبقہ خودکشیوں پر مجبور ہوجائے صاحبِ ثروت اور مخّیر حضرات بھی اپنا کردار ادا کریں۔
آئی ایم ایف کی جانب سے اسٹیٹ بینک سے مستقل طور پر قرض لینے کی حکومت کی تجویز کو مسترد کرنے اوربڑھتی ہوئی غیر یقینی اور پیٹرولیم سیکٹر کی جانب سے ہونے والی ہڑتال نے اسٹاک مارکیٹ پر منفی اثرات مرتب کئے ہوئے ہیں جبکہ شرح سود میں اضافے کے اثرات سے بھی سرمایہ کار ابھی تک باہر نہیں نکل پائے ہیں اور نئی سرمایہ کاری سے گریز کرتے دکھائی دیتے ہیں۔سرمایہ کاروں کی دلچسپی کم ہونے کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ گزشتہ روز کی نسبت کاروباری حجم کم سے کم ہو رہا ہے۔گزرے جمعرات کوپاکستان اسٹاک مارکیٹ کریش ہو گئی ،کے ایس ای100انڈیکس 2ہزار پوائنٹس گھٹ گیا جس کی وجہ سے انڈیکس 45ہزاراور44ہزار پوائنٹس کی حد سے نیچے گر گیا اور43200پوائنٹس کی پست ترین سطح پر بند ہوا ،مندی کے سبب مارکیٹ میں سرمایہ کاروں کے 332ارب روپے سے زائد ڈوب گئے اور سرمائے کا مجموعی حجم 77کھرب روپے سے گھٹ کر74کھرب روپے رہ گیا ،شدید ترین کاروباری مندی سے 92.60فیصد حصص کی قیمتیں بھی گر گئیں۔رواں ماہ مہنگائی کی شرح میں اضافہ اور14 دسمبر کو اگلی مانیٹری پالیسی میں مہنگائی کی شرح کو کنٹرول کرنے کے لئے حکومت کی جانب سے شرح سود میں ایک فیصد اضافے کے خدشے پرسرمایہ کاروں تشویش بڑھ گئی ہے اور سرمایہ کار نہ صرف محتاط ہوکر حصص کی ٹریڈنگ کر رہے ہیں بلکہ منافع کیلئے بڑی فروخت کو بھی ترجیح دے رہے ہیں دوسری جانب 5ماہ میں روپے کی قدر 15فیصد کی مزید کمی اور ملکی قرضے50کھرب روپے تک پہنچنے کیساتھ 3سال میں 20کھرب روپے کا اضافہ ہونے جیسی خبروں پر انویسٹرز ملکی معیشت کے حوالے سے تذبذب کا شکار ہیںفیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے منی بجٹ پیش کرنے کے لیے ترمیمی فنانس بل کا مسودہ وزارت قانون کو بھجوا دیا۔ ایف بی آر نے ترمیمی فنانس بل کا مسودہ وزارت قانون کوبجھوا دیا ہے جبکہ وزارت قانون سے منظوری کے بعد فنانس بل کابینہ کے سامنے پیش کیا جائے گا۔ ترمیمی فنانس بل میں 350 ارب روپے کے ٹیکس استثنیٰ ختم کرنے کی تجویزشامل ہے جبکہ حکومت نے چوتھے ٹیکس قوانین ترمیمی آرڈیننس کو بل میں تبدیل کردیا ہے۔اس کے علاوہ ٹیکس چھوٹ ختم کرنے کے لیے شیڈول 5،6،7،8 اور 9 میں ترامیم تجویز کی گئی ہیں۔ اس ترمیم میں پیٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی کا ہدف 600 ارب روپے سے کم کر کے 356ارب روپے مقرر کیا جائیگا جبکہ موبائل فون، اسٹیشنری اور پیک فوڈ آئیٹمزپر ٹیکس چھوٹ ختم کیے جانے کا امکان ہے۔منی بجٹ تیار، ملک میں مہنگائی کے نئے طوفان کا خطرہ منڈلانے لگاکہ برآمدات کے سوا زیرو ریٹنگ سے بھی سیلز ٹیکس چھوٹ واپس لی جائے گی جبکہ جن اشیاء پر سیلز ٹیکس چھوٹ زائد ہے اس پر سیلز ٹیکس ریٹ 17 فیصد لاگو ہوگا۔مخصوص شعبوں کو حاصل ٹیکس چھوٹ کو بھی ختم کیے جانے کا امکان ہے۔پیٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی بڑھانے یا کم کرنیکا اختیار وزیر اعظم کو دینے کی تجویز ہے جبکہ ٹیکس وصولیوں کا ہدف 5829 ارب روپے سے بڑھا کر 6100ارب روپے مقرر کرنیکی بھی تجویز ہے۔اس کے علاوہ ترقیاتی پروگرام میں 200 ارب روپے کمی کرنے کی تجویز بھی ترمیمی بل کا حصہ ہے۔ 800سی سی سے بڑی گاڑیوں پر ٹیکس کی شرح بڑھانے اورلگڑری گاڑیوں کی درآمد پر پابندی عائد کرنے کی تجویز ترمیمی بل کا حصہ ہے جبکہ کتوں اور بلیوں کے لیے درآمد خوراک پر ڈیوٹی بڑھانے یا اس پر پابندی کی تجویز بھی شامل ہے۔اس کے علاوہ کاسمیٹکس کے سامان پر ڈیوٹی بڑھانے کی تجویز ترمیمی فنانس بل کا حصہ ہے۔ذرائع کے مطابق ڈبوں میں پیک کھانے پینے کی اشیاء کی درآمد پر پابندی کی تجویز بھی ترمیمی بل میں شامل ہے۔آئی ایف ایم سے معاہدے کے تحت حکومت کو 12جنوری تک منی بجٹ منظور کرانا ہوگا۔اس کے بعد عوام کے خدکشی بھی ممکن نہیں رہے گی۔
حکومت کا آئی ایم ایف کے ساتھ اسٹاف لیول معاہدہ طے پا گیا ہے اورعالمی ادارے کی سخت شرائط پرعمل درآمد بھی شروع کردیا گیا ہے تاکہ آئی ایم ایف کا بورڈ جنوری میں اس کی توثیق کردے جس کے بعد ملک کے دیوالیہ ہونے کا خطرہ وقتی طور پر ٹل جائے گا۔ کچھ عرصے کے لیے روپے اورمعیشت کواستحکام نصیب ہوگا تاہم بجلی گیس پیٹرول اوردیگر اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ کا نہ رکنے والا سلسلہ چل نکلے گاجس سے عوام کا جینا دشوارہوجائے گا۔ معاہدے سے پیداوار، روزگاراوربرآمدات میں کمی آئے گی اورمعیشت سکڑنا شروع ہوجائے گی جس کا اثر بائیس کروڑعوام پرپڑے گااور پاکستان مغربی ممالک کی خواہشات نہ ماننے کی وجہ سے آئی ایم ایف کی شرائط وقت کے ساتھ مزید سخت ہوتی جائیں گی۔ حکومت ترقیاتی اخراجات میں بخوشی کئی سوارب روپے کٹوتی کرے گی مگراپنی شاہ خرچیوں پرکبھی کمپرومائیزنہیں کرے گی۔ جیسے جیسے الیکشن قریب آتے جائیں گے ووٹروں اورسیاستدانوں کونوازنے کے لیے فضول خرچیاں بڑھتی جائیں گی اورسارا خرچہ روٹی کو ترستی عوام کی جیب سے نکالا جائے گا۔