بچے اورعیش پسندی

403

افراد ہوں کہ اقوام، خوشحالی کسی کے ساتھ ہمیشہ نہیں رہتی، خوشحال قومیں جدوجہد بھری زندگی نہیں گزار پاتیں، حالاتِ زمانہ سے نبرد آزما ہونے اور وقت کا دھارا تبدیل کردینے کی صلاحیت بالعموم ان میں نہیں پائی جاتی۔ اسی لیے رسول اللہؐ اپنے صحابہ کی تربیت میں بہادری، سادگی اور مشکلات کو برداشت کرنے جیسے امور کا بہت خیال رکھتے، خوش عیشی، سامانِ راحت اور تکلفات سے بھرپور طرز زندگی اختیار کرنے سے روکتے، اس لیے کہ آپ جانتے تھے کہ اس طرزِ زندگی کے افراد ومعاشروں پر کیسے نقصاندہ اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
تربیت نبوی کے اسالیب پر غور کریں تو ہمیں اس کے بہت دلائل ملتے ہیں، اسی کے پیش نظر آپ نے مردوں کے لیے سونے اور ریشم کے استعمال کی ممانعت کی، نازک مزاجی ولباس میں عورتوں کی مشابہت سے مردوں کو روکا، مرد کو اظہار فخر ونازکے لیے کپڑا لٹکا کر چلنے سے منع کیا، اور اس کی بابت سخت ترین آگاہی دیتے ہوئے کہا: ’’جو مرد اپنے لباس کو فخر وناز میں لٹکاکر چلے گا اللہ اس کی جانب نظر کرم نہیں فرمائے گا‘‘۔ (بخاری، مسلم) اسی طرح ایک روایت میں آپؐ سے ایسے شخص کے لیے مغفرت کی بشارت منقول ہے جو دن بھر کام کرکے شام کو تھک جائے۔ (یہ روایت طبرانی اور ابن عسکر نے نقل کی ہے، حافظ عراقی اور حافظ ہیثمی نے اسے ضعیف قرار دیا ہے، ملاحظہ ہو: فیض القدیر، مناوی)
یہ احادیث اور ذخیرۂ احادیث میں موجود ایسی بہت سی احادیث اس بے جا خشکی اور مصنوعی تقوے کا مطالبہ نہیں کرتی ہیں جو ہمیں کچھ اسلام کے حقیقی علم سے بے بہرہ اور اس کے صحیح فہم سے محروم مسلمانوں اور داعیوں کے یہاں نظر آتا ہے، بسا اوقات ایسے لوگ سادہ لوح ہوتے ہیں، اور اچھی نیت رکھتے ہیں، لیکن اسی غلط طرز فکر کی وجہ سے بہت سے لوگ ان داعیوں سے دور بھاگتے ہیں جن کی دعوت لباس، آدابِ خورد ونوش اور ظاہری امور تک محدود رہتی ہے۔ اگر ان اور ان جیسی احادیث کو صحیح طور پر برتا جائے، یعنی ان کے سلسلے میں یہ حقیقت ذہن میں رہے کہ یہ امت کی رہنمائی نفع بخش طرز وطریقہ کی جانب کرتی ہیں، مربی مردوں اور عورتوں کو ان اصولوں کی جانب متوجہ کرتی ہیں جن کے مطابق اگلی نسلوں کی پرورش ہونی چاہیے، تعلیمی منصوبوں، نظاموں اور نصابوں کو، بلکہ ورزش، تربیت اور سیاست سے متعلق خاکوں کو ترتیب دینے والوں کے لیے ان صفات کو واضح کرتی ہیں جو ایک مسلمان کے اندر ہونی چاہییں، یعنی: مردانگی لیکن کرختگی نہیں، سادگی پسندی لیکن بد اخلاقی نہیں، ناپسندیدہ امور پر صبر، ادب لیکن بے حیائی سے پرہیز، ہر حق والے کے حقوق کی ادائیگی کے ساتھ اللہ کی نعمتوں کا استعمال، اگر ان حدیثوں سے ان کی یہ حقیقی راہنمائیاں حاصل کی جائیں تو یہ احادیث اگلی نسلوں کو پچھلی نسلوں کے مقابلے میں زیادہ اچھا ومفید بنانے میں اہم کردار ادا کریں گی ۔ ترجمہ: الیاس احمد نعمانی