موت کی یاد

350

امام غزالیؒ فرماتے ہیں کہ موت کا معاملہ زیادہ خطرناک ہے اور لوگ اس سے بہت غافل ہیں، اول تو اپنے مشاغل کی وجہ سے اس کا تذکرہ ہی نہیں کرتے اور اگر کرتے ہیں تب بھی چوں کہ دل دوسری طرف مشغول ہوتا ہے اس لیے محض زبانی تذکرہ مفید نہیں، بلکہ ضرورت اس کی ہے کہ سب طرف سے بالکل فارغ ہوکر موت کو اس طرح سوچے کہ گویا وہ سامنے ہے جس کی صورت یہ ہے کہ: اپنے عزیز واقارب اور جانے والے احباب کا حال سوچے کہ کیوں کر ان کو چار پائی پر لے جاکر مٹی کے نیچے دبا دیا۔ان کی صورتوں کا، ان کے اعلیٰ منصوبوں کا خیال کرے اور یہ غور کرے کہ اب مٹی نے کس طرح ان کی صورتوں کو پلٹ دیا ہوگا، ان کے بدن کے ٹکڑے الگ الگ ہوگئے ہوں گے، کس طرح بچوں کو یتیم، بیوی کو بیوہ اور عزیز واقارب کو روتا چھوڑ کر چل دیے، ان کے سامان، ان کے کپڑے پڑے رہ گئے، یہی حشر ایک دن میرا بھی ہوگا۔ کس طرح وہ مجلسوں میں بیٹھ کر قہقہے لگاتے تھے، آج خاموش پڑے ہیں، کس طرح دنیا کی لذتوں میں مشغول تھے، آج مٹی میں ملے پڑے ہیں، کیسا موت کو بھلا رکھا تھا، آج اس کا شکار ہوگئے۔ کس طرح جوانی کے نشے میں تھے آج کوئی پوچھنے والا نہیں، کیسے دنیا کے دھندوں میں ہر وقت مشغول رہتے تھے، آج ہاتھ الگ پڑا ہے، پاؤں الگ ہے، زبان کو کیڑے چاٹ رہے ہیں، بدن میں کیڑے پڑ گئے ہوں گے۔ کیسا کھل کھلا کر ہنستے تھے، آج دانت گرے پڑے ہوں گے۔ کیسی کیسی تدبیریں سوچتے تھے، برسوں کے انتظام سوچتے تھے، حالاں کہ موت سر پر تھی، مرنے کا دن قریب تھا، مگر انہیں معلوم نہیں تھا کہ آج رات کو میں نہیں رہوں گا اور آج یہی حال میرا ہے۔ آج میں اتنے انتظامات کر رہا ہوں، مگر کل کی خبر نہیں کہ کل کیا ہوگا۔
دانیال علیہ السلام ایک دن جنگل میں چلے جا رہے تھے۔ آپ کو ایک گنبد نظر آیا، آواز آئی کہ اے دانیال! ادھر آ۔ دانیال علیہ السلام اس گنبد کے پاس گئے تو دیکھا بڑی عمدہ عمارت ہے اور عمارت کے بیچ ایک عالی شان تخت بچھا ہوا ہے، اس پر ایک بڑی لاش پڑی ہے، پھر آواز آئی کہ اے دانیال! تخت کے اوپر آؤ، آپ اوپر تشریف لے گئے تو ایک لمبی چوڑی تلوار مردے کے پہلو میں رکھی ہوئی تھی۔ اس پر یہ عبارت لکھی ہوئی تھی کہ میں قوم عاد سے ایک بادشاہ ہوں، خدا نے تیرہ سو سال کی مجھے عمر عطا فرمائی، بارہ ہزار میں نے شادیاں کیں، آٹھ ہزار بیٹے ہوئے، لاتعداد خزانے میرے پاس تھے، اس قدر نعمتیں لے کر بھی میرے نفس نے خدا کا شکر ادا نہ کیا، بلکہ الٹا کفر کرنا شروع کر دیا اور خدائی کا دعوٰی کرنے لگا۔ خدا نے میری ہدایت کے لیے ایک پیغمبر بھیجا، ہر چند انہوں نے مجھے سمجھایا، مگر میں نے کچھ نہ سنا، انجام کار وہ پیغمبر مجھے بد دعا دے کر چلے گئے، حق تعالیٰ نے مجھ پر اور میرے ملک پر قحط مسلط کر دیا، جب میرے ملک میں کچھ پیدا نہ ہوا، تب میں نے دوسرے ملکوں میں حکم بھیجا کہ ہر ایک قسم کا غلہ اور میوہ میرے ملک میں بھیجا جائے، میرے حکم کے مطابق ہر قسم کا غلہ اور میوہ میرے ملک میں آنے لگا، جس وقت وہ غلہ یا میوہ میرے شہر کی سرحد میں داخل ہوتا فوراً مٹی بن جاتا اور وہ ساری محنت بے کار ہوجاتی اور کوئی دانہ مجھے نصیب نہ ہوتا۔ اسی طرح ساٹھ دن گزر گئے، میرے قلعے سے سب خدام اور میرے بیوی بچے بھاگ گئے، میں قلعے میں تنہا رہ گیا، سوائے فاقے کے میری کوئی خوراک نہ تھی، ایک دن میں نہایت مجبور ہو کر فاقے کی تکلیف میں قلعے کے دروازے پر آیا، وہاں مجھے ایک شخص نظر آیا، جس کے ہاتھ میں غلے کے کچھ دانے تھے، جن کو وہ کھاتا چلا جاتا تھا، میں نے اس جانے والے سے کہا کہ ایک بڑا برتن بھرا ہوا موتیوں کا مجھ سے لے لے اور یہ اناج کے دانے مجھے دے دے، مگر اس نے نہ سنی اور جلدی سے ان دانوں کو کھا کر میرے سامنے سے چلا گیا، انجام یہ ہوا کہ اس فاقے کی تکلیف سے میں مر گیا، یہ میری سر گزشت ہے، جو شخص میرا حال سنے، وہ کبھی دنیا کے قریب نہ آئے۔ (سیرۃ الصالحین)