پاکستان اور بھارت کے درمیان ہر چیز جنگ ہے

567

برصغیر میں ہندوئوں اور مسلمانوں بالخصوص ہندوستان اور پاکستان کے درمیان ہر چیز جنگ ہے۔ سیاسی اختلاف بھی، مندر بھی، مسجد بھی، نصاب بھی، ہاکی بھی، کرکٹ بھی، یہاں تک کہ فلم بھی۔ یہ ہمارا ’’فیصلہ‘‘ نہیں ہے۔ یہ تاریخ کی گواہی ہے۔ جیسے کوئی اندھا اور جھوٹا ہی جھٹلا سکتا ہے۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان ہر چیز جنگ نہ ہوتی تو ابوظہبی میں ہونے والے ٹی ٹوئنٹی کے میچ میں پاکستان کے ہاتھوں بھارت کی شکست وہ مظاہر خلق نہ کرتی جو اس نے کیے۔ کیا آپ نے دیکھا نہیں پاکستان کے ہاتھوں بھارت کی شکست کے بعد کیا ہوا؟ ہندو انتہا پسندوں نے بھارتی ٹیم کے واحد مسلمان رکن محمد شامی کو ’’غدار‘‘ قرار دے دیا کیوں کہ انہوں نے اپنے ایک اوور میں زیادہ رنز دے دیے۔ بھارتی ریاست اتر پردیش میں پولیس اور انتہا پسند ہندو ایک تعلیمی ادارے کے کشمیری طلبہ پر چڑھ دوڑے۔ اس لیے کہ یہ طلبہ پاکستان کی فتح پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے پائے گئے۔ بھارتی صحافی یادیو چندر نے انکشاف کیا ہے کہ پاکستان کے ہاتھوں بھارت کی شکست بھارتی ٹیم کے لیے ڈرائونا خواب بن گئی اور بھارتی ٹیم پوری رات سو نہ سکی۔ (روزنامہ 92 نیوز کراچی) پاکستان کے ایک ٹیلی وژن چینل کی رپورٹ کے مطابق بھارت میں ایک مسلمان خاتون استاد کو اس لیے نوکری سے نکال دیا گیا کہ وہ پاکستان کی ٹیم کی فتح کا اسٹیٹس لگاتی ہوئی پائی گئی۔
سیاسی اختلاف اور آزادی کا خواب پوری انسانیت کی میراث ہے اور سیاسی اختلاف کو جنگ میں تبدیل کرنے کا کوئی جواز نہیں۔ سوویت یونین ٹوٹا تو قازقستان، ازبکستان اور ترکمانستان سمیت کئی مسلم علاقے روس سے الگ ہو کر آزاد ملک بن گئے۔ روس نے ان قوموں کے سیاسی اختلاف کا احترام کیا اور اس نے مسلم کش فسادات کی تاریخ تخلیق کرنے کی کوشش نہیں کی۔ ابھی چند سال پہلے جنوبی سوڈان کے عیسائیوں نے سوڈان سے الگ ہو کر ایک الگ ریاست بنالی اور سوڈان کے مسلمانوں نے عیسائیوں کے اختلاف کو برداشت کیا اور انہوں نے عیسائی کش فسادات برپا کرنے کی سازش نہیں کی۔ انڈونیشیا کے علاقے مشرقی تیمور کے عیسائیوں نے بھی خود کو انڈونیشیا سے الگ کرکے ایک علٰیحدہ ریاست بنالی اور انڈونیشیا کے مسلمانوں نے بھی مشرقی تیمور کی علٰیحدگی کو قبول کرلیا اور انہوں نے عیسائیوں کی نسل کشی کی کوئی کوشش نہیں کی۔ 1940ء کی دہائی میں پاکستان بھی ایک ’’سیاسی خیال‘‘ کے طور پر سامنے آیا۔ برصغیر کے مسلمانوں نے کہا کہ وہ مذہب، تہذیب اور تاریخ کی بنیاد پر ہندوئوں سے الگ قوم ہیں اور انہیں اپنے مذہب کے تقاضوں کے مطابق اجتماعی زندگی بسر کرنے کے لیے ایک الگ وطن پاکستان درکار ہے۔ مگر بھارت کی تنگ نظر ہندو قیادت نے پاکستان کے تصور کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ پاکستان کا تصور حقیقت بن گیا تو ہندو قیادت نے پاکستان کے وجود کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ اس نے پاکستان کے حصے کی رقم روک لی اور پاکستان کو مالیات کی سولی پر لٹکانے کی کوشش کی۔ ہندو قیادت کو بالآخر پاکستان کے حصے کی رقم ادا کرنی پڑی تو ہندو قیادت نے پورے برصغیر میں مسلم کش فسادات کی آگ بھڑکا دی۔ یہ آگ دس لاکھ مسلمانوں کو کھا گئی۔ 80 ہزار سے زیادہ مسلم خواتین اغوا اور لاپتا ہوئیں۔ بھارت کے دارالحکومت دہلی میں مسلم کش فسادات اتنے بڑھے کے ممتاز مسلمان بھی ان کی زد میں آگئے۔ مولانا ابوالکلام آزاد کانگریس کے اہم رہنما تھے۔ مسلمانوں نے اپنی حفاظت کے لیے مولانا ابوالکلام آزاد سے رجوع کیا۔ مولانا نے مسلمانوں کے تحفظ کے لیے نہرو سے درخواست کی۔ مگر نہرو نے کچھ بھی نہ کیا۔ مولانا ابولاکلام آزاد نے نہرو پر کچھ کرنے کے لیے دبائو بڑھایا تو نہرو نے عذر پیش کردیا کہ میں تو وزیر داخلہ سردار پٹیل سے مسلم کش فسادات رکوانے کے لیے کہہ رہا ہوں مگر وہ میری بات سنتے ہی نہیں۔ غور کیا جائے تو اصل بات یہ نہیں تھی کہ سردار پٹیل وزیر داخلہ ہونے کے باوجود وزیراعظم نہرو کی بات نہیں مان رہے تھے اصل بات یہ تھی کہ خود نہرو بھی مسلم کش فسادات کو رکوانا نہیں چاہتے تھے، ان کے نزدیک پاکستان کا قیام ایک جنگ تھی اور ہر ہندو اس جنگ میں اپنا کردار ادا کررہا تھا۔
ہندو قیادت ’’ایک قومی نظریے‘‘ کی قائل تھی اور اس کی نظر میں دو قومی نظریے کے علمبردار غدار تھے۔ اس تناظر میں جن لوگوں نے ہندوستان سے پاکستان ہجرت کی وہ سب بھی ’’غدار‘‘ تھے۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ جن مسلمانوں نے دو قومی نظریے کو نہیں مانا، جنہوں پاکستان ہجرت کرنے کے بجائے ہندوستان میں رہنا پسند کیا وہ تو ’’غدار‘‘ نہیں تھے۔ وہ تو ہندوستان کے ’’وفادار‘‘ تھے۔ چناں چہ بھارت کی ہندو قیادت کا فرض تھا کہ وہ ہندوستان میں رہ جانے والے مسلمانوں کی قدر کرتی۔ انہیں برابر کا شہری تسلیم کرتی اور انہیں زندگی کے ہر شعبے میں آگے بڑھنے کے مواقع فراہم کرتی۔ مگر بدقسمتی سے ایسا نہیں ہوا۔ بھارت کی تنگ نظر ہندو قیادت نے بھارت میں موجود مسلمانوں کو بھی ’’غدار‘‘ بنا کر کھڑا کردیا۔ ہندو قیادت نے 74 سال میں بھارت کے اندر پانچ ہزار سے زیادہ چھوٹے بڑے مسلم کش فسادات کرا دیے۔ ہندو قیادت نے بھارتی مسلمانوں کی معیشت کو تباہ کردیا۔ آزادی سے پہلے مسلمانوں کی نمائندگی پولیس میں 12 سے 14 فی صد تھی جو اب گھٹ کر ایک اور 2 فی صد کے درمیان ہوگئی ہے۔ آزادی سے قبل مسلمان ریلوے میں 8 سے 10 فی صد تھے آج ایک فی صد سے بھی کم ہیں۔ بھارت میں مسلمانوں کی آبادی مجموعی آبادکاری کا 20 فی صد ہے مگر بھارت کے منتخب ایوانوں میں مسلمانوں کی موجودگی ایک فی صد سے بھی کم ہے۔ ہم نے بھارت میں بی اے اور ایم اے مسلم نوجوانوں کو بیروزگار دیکھا ہے۔ انہیں پان کے کھوکھے اور پرچون کی دکانیں چلاتے دیکھا ہے۔ یہ صورتِ حال بھارت کے مسلمانوں پر مسلط ایک جنگ کی طرح ہے۔ اردو نہ عرب سے آئی ہے نہ ایران سے آئی ہے۔ اس نے بھارت میں جنم لیا ہے اور اس کی رگوں میں عربی اور فارسی کے ساتھ ساتھ ہندی کا خون بھی دوڑ رہا ہے۔ مگر بھارت کی ہندو قیادت نے اردو کے خلاف جنگ کا اعلان کررکھا ہے۔ بھارت کی ہندو قیادت نے اردو کو مسلمانوں کی زبان بنا کر کھڑا کردیا ہے۔ مسلمانوں نے بھارت پر ایک ہزار سال حکومت کی مگر انہوں نے کبھی ہندوئوں کی عبادت گاہوں کو نقصان نہیں پہنچایا۔ مگر بھارت کی ہندو قیادت نے بابری مسجد کو دن دہاڑے شہید کردیا۔ حالاں کہ اس بات کی ایک تاریخی شہادت موجود نہیں کہ جس جگہ بابری مسجد تعمیر ہوئی وہاں کبھی مندر موجود تھا۔ اہم بات یہ ہے کہ بھارت کی ہندو قیادت بابری مسجد کی شہادت پر شرمندہ نہیں ہے بلکہ وہ اس پر فخر کرتی ہے۔ بھارت کی قیادت کی جنگ پرستی کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ بھارت کی عدالت عظمیٰ نے بابری مسجد کے حوالے سے ’’سیاسی فیصلہ‘‘ کیا۔ بھارت کی عدالت عظمیٰ نے بابری مسجد پر کھل کر ہندوئوں کا ساتھ دیا۔
پاکستان کے لوگ فلموں کو ’’تفریحی مواد‘‘ سمجھتے ہیں مگر بھارت کی ہندو قیادت نے اپنی فلموں کو بھی جنگ کا ہتھیار بنا دیا ہے۔ بھارت کے سابق وزیراعظم راجیوگاندھی کی اہلیہ سونیا گاندھی نے چودہ پندرہ سال پہلے فرمایا تھا کہ ہمیں پاکستان پر حملے کی ضرورت ہی نہیں کیوں کہ ہم نے پہلے ہی اپنی فلموں کے ذریعے پاکستان کو فتح کرلیا ہے۔ بدقسمتی سے سونیا گاندھی کو یہ تو معلوم تھا کہ پاکستان میں بھارتی فلمیں مقبول ہیں مگر انہیں ان فلموں کی مقبولیت کا ’’راز‘‘ معلوم نہیں تھا۔ ان فلموں کی مقبولیت کا راز یہ ہے کہ بھارت اپنی جن فلموں کو ’’ہندی فیچر فلمیں‘‘ کہتا ہے وہ اپنی اصل میں ’’اردو فیچر فلمیں‘‘ ہوتی ہیں۔ ان فلموں کے 99 فی صد گیت اردو میں ہوتے ہیں۔ بھارت ذرا اپنی فلموں میں خالص ہندی زبان اور خالص ہندی گیت استعمال کرے پھر ہم بھی دیکھیں گے کہ وہ فلمیں پاکستان میں کیسے مقبول ہوتی ہیں؟ یہ بات بھی تاریخ کے ریکارڈ پر موجود ہے کہ بھارت نے گزشتہ تیس سال میں پاکستان کے خلاف ڈیڑھ درجن سے زیادہ فلمیں بنائی ہیںاور اس نے ثابت کیا ہے کہ اس کے لیے فلم بھی پاکستان اور مسلمانوں کے خلاف جنگ کا حصہ ہے۔
نصاب کو لوگ ’’علمی چیز‘‘ سمجھتے ہیں مگر بھارت کی تنگ نظر ہندو قیادت نے اپنے اسکولوں کے نصاب کو بھی جنگ کا ہتھیار بنادیا ہے۔ اس وقت بھارت کی کئی ریاستوں میں ایسا نصاب پڑھایا جارہا ہے جس میں اکھنڈ بھارت کا تصور پیش کیا گیا ہے اور پاکستان اور بنگلادیش ہی کو نہیں خطے کے تمام ممالک کو اکھنڈ بھارت کا حصہ دکھایا گیا ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو اگر بھارت نے کرکٹ کو بھی جنگ بنا دیا ہے تو اس میں حیرت کی بات نہیں۔ پاکستان سے شکست کھانے کے بعد بھارت کی ٹیم پوری رات سو نہیں سکی۔ صدمے کی شدت بتارہی ہے کہ بھارت نے میچ نہیں ہارا جنگ ہاری ہے۔