فلسفہ اخلاق اورامام غزالی کے افکار

995

فلاسفہ کے درمیان ایک مسئلہ یہ زیر بحث رہا ہے کہ اخلاق میں اصلاح وفساد کی قابلیت ہے یا نہیں؟ بہ الفاظ دیگر انسان بالطبع شریر پیدا ہوتا ہے یا شریف؟ اس سلسلے میں امام غزالی نے ارسطو کی رائے اختیار کی ہے کہ بداخلاقی یا خوش اخلاقی کوئی چیز انسان کی طبعی اور جبلّی نہیں، جو کچھ ہے تعلیم وتربیت کا اثر ہے۔ چوںکہ تربیت کی بنیاد بچپن میں پڑتی ہے اس لیے انھوں نے بچوں کی اخلاقی تربیت کے موضوع پر تفصیل سے لکھا ہے۔ یہ حصہ بھی ابن مسکویہ کی کتاب تہذیب الاخلاق سے ماخوذ ہے۔
ان موضوعات پر اظہار خیال کرتے ہوئے امام غزالی نے جابجا اضافے کیے ہیں اور قیمتی معلومات پیش کی ہیں۔ مثال کے طور پر ابن مسکویہ نے اخلاقی امراض کی آٹھ قسمیں بیان کی ہیں: تہوّر، جبن، حرص، جمود، سفاہت، بلاہت، جور اور ذلت۔ ان میں سے صرف اوّل الذکر دو امراض کے علاج کے طریقے بتائے ہیں، بقیہ سے تعرض نہیںکیا ہے، جب کہ امام غزالی نے تمام اخلاقی امراض کا استقصاء کیا ہے اور ایک ایک مرض کی حقیقت وماہیت، تشخیص اور علاج کے طریقے تفصیل سے تحریر کیے ہیں۔ انہوں نے حسد، جاہ پرستی، ریا، عْجب، غرور، غضب، بخل، غیبت، کذب، فضول گوئی، چغل خوری، مزاح وغیرہ میں سے ایک ایک کا مستقل عنوان قائم کیا ہے اور اس پر فلسفیانہ انداز سے بحث کی ہے۔ احیاء العلوم کا ایک اہم باب ذم الغرور کے عنوان سے ہے۔ اس میں انھوں نے علماء زہاد، حجّاج، اصحاب مال اور دیگر طبقات کی اخلاقی خرابیوں پر تفصیل سے لکھا ہے۔ بعض اخلاقی اوصاف میں بڑا دقیق اور نازک فرق ہوتا ہے، کہ ان میں امتیاز کرنا دشوار ہوتا ہے، مثلاً بخل اور کفایت شعاری، سخاوت اور اسراف، پست ہمتی اور قناعت، دنائت اور تواضع، غرور اور خود داری۔ امام غزالی نے نہایت نکتہ سبخی سے ان کا تجزیہ کیا ہے اور ان کے درمیان فرق کی وضاحت کی ہے۔ اخلاقی امراض کی تشخیص کے بعد دوسرا مرحلہ ان کے علاج کا ہے۔ حکمائے یونان نے اس کے دو طریقے قرار دیے تھے۔ ایک علاج بالضد کا طریقہ ہے، یعنی جس وصف کا مرض ہو اس کے برعکس وصف سے اس کا علاج کیا جائے۔ مثلاً کوئی شخص بخل میں مبتلا ہو تو اسے بہ تکلف سخاوت کا عادی بنایا جائے۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ تمام امراض کی بنیاد دو چیزیں ہیں: غضب اور جبن۔ اس لیے کوئی بھی اخلاقی مرض ہو، پہلے غضب اور جبن کا علاج کرنا چاہیے۔ امام غزالی علاج کے پہلے طریقے کے معاملے میں حکمائے یونان سے متفق ہیں۔ اس لیے اس موضوع پر تفصیل سے اظہار خیال کرتے ہیں، لیکن دوسری رائے کو تسلیم نہیں کرتے۔ ان کے نزدیک ہر مرض کے اسباب جدا ہیں، چنانچہ وہ ہر مرض کے ذیل میں بڑی باریکی کے ساتھ اس کے مخصوص اسباب بیان کرتے ہیں، پھر اس کا علاج بتاتے ہیں۔ غیبت، غیظ وغضب اور حسد وغیرہ پر انھوں نے جو کچھ لکھا ہے وہ اس لائق ہے کہ اسے بار بار پڑھاجائے۔
فلسفۂ اخلاق کا ایک اہم مسئلہ یہ ہے کہ اخلاق کی غرض و غایت کیا ہے؟ اچھائی کیوں اختیار کی جائے اور برائی سے کیوں بچا جائے؟ عموماً اس کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ اس کا مقصد لذائذ جنت کا حصول اور شدائد جہنم سے نجات ہے۔ امام غزالی کو اس سے اتفاق نہیں ہے۔ ان کے نزدیک جنت کا حصول اور جہنم سے نجات بلاشبہ تقویٰ کا لازمی نتیجہ ہے، لیکن یہ مقصود نہیں۔ مقصود اصلی رضائے الٰہی کا حصول ہے۔
موجودہ دور میں اخلاقی زوال اپنی انتہا کو پہنچ گیا ہے۔ کسی بھی معاملے میں اخلاق کی پابندی نہیں کی جاتی۔ یہ ملک کے تمام طبقات کا حال ہے اور افرادِ امتِ مسلمہ کا بھی کوئی استثناء نہیں ہے۔ مال دار ہوں یا غریب، تجارت پیشہ ہوں یا مزدور، سیاست داں ہوں یا عوام، روایتی علما ہوں یا دانش ور سب اس کا شکار ہیں۔ ایسے میں شدید ضرورت اس بات کی ہے کہ امام غزالی کے ان افکار کو عام کیا جائے اور انھوں نے اخلاق کی درستی کی جو تدابیر بتائی ہیں، ان کو روبہ عمل لایا جائے۔