کشمیر منشیات کے زہر ناک پنجوں میں

408

سرینگر کشمیر
جموں کشمیر میں منشیات وبا کی طرح پھیل رہی ہے۔ منشیات کے سبب ہزاروں کشمیری گھر اور خاندان برباد ہو گئے ہیں۔ نوجوان نشہ آور ادویات، شراب اور دیگر چیزیں خریدنے کے لیے اپنے گھروں کے قیمتی سامان کوڑیوں کے دام بیچ کر اپنی زندگی برباد کرنے سے ہچکچاتے نہیں۔ جن کو گھروں سے بیچنے کے لیے کچھ ملتا نہیں وہ چوری کرکے نشہ آور چیزیں خرید رہے ہیں۔ کشمیر میں نشہ آور چیزوں کی خرید وفروخت اپنے عروج پر ہے یعنی کشمیر اللہ نہ کرے اب ’’اُڑتا پنجاب‘‘ بننے جا رہا ہے۔ اس کاروبار سے وابستہ انسانیت کے قاتلوں نے نوجوانوں کی زندگیاں برباد کرکے اپنے لیے دولت کے انبار جمع اور محلات تعمیر کیے ہیں۔ بلکہ آج جو بھی زیادہ پیسہ کم وقت میں کمانا چاہتا ہے وہ اس انسانیت سوز دھندے میں شامل ہو جاتا ہے۔ کشمیر میں نشے کا استعمال نوجوان بہت ساری وجوہات سے کر رہے ہیں۔ چند اپنی گھریلوں پریشانیوں کے سبب، چند لڑکو ں اور لڑکیوں سے عشق و عاشقی کے سلسلے میں، چند شوقیا اور ماہرین کے مطابق چند نوجوان کشمیر میں جاری شورش یعنی مسئلہ کشمیرکے سبب نشہ آور چیزوں کا استعمال کر رہے ہیں۔ یعنی اربوں کی دولت اُڑا کر جموں کشمیر کے نوجوان منشیات کی لت میں مبتلا ہو کے ایک قومی گناہ کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ لیکن یہ شراب اور دیگر نشہ آور ادویات کہاں سے اور کیسے کشمیر میں سپلائی کی جا رہی ہیں یہ کشمیر کی عوام جاننے سے قاصر نظر آ رہے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ تین سال میں 1500فی صد مریضوں نے سرکاری اسپتال جا کے ان نشوں سے چھٹکارے کے لیے داخلہ لیا۔ نیوز 18کے ایک سروے میں کہا گیا ہے کہ ’’حال ہی میں گورنمنٹ میڈیکل کالج سری نگر کے انسٹی ٹیوٹ آف مینٹل ہیلتھ اینڈ نیورو سائنسز نے سرینگر اور اننت ناگ میں ایک پائلٹ سروے یہ جاننے کے لیے کیا کہ یہاں منشیات کا استعمال کس حد تک ہو رہا ہے۔ سروے کے نتائج بہت ہی حیران و پریشان کُن تھے۔ سروے کے انچارج ڈاکٹر یاسر نے بتایا کہ سروے میں نشے کی لت میں پڑے 300؍افراد پر تحقیق کی گئی اور یہ پتا چلا ان دو شہروں میں ہیروئن اور افیم کی دیگر نشہ آور ادویات آسانی سے میسر ہیں۔ اس کے علاوہ یہ بھی پتا چلا کہ ان شہروں میں دو فی صد آبادی منشیات میں ملوث ہے روزانہ ساڑھے تین کروڑ روپے صرف اننت ناگ اور سرینگر میں منشیات کی خرید پر خرچ کیے جاتے ہیں۔ کشمیر پولیس کے مطابق ایک گرام ہیروئن کی قیمت تین سے چار ہزار تک کی ہے۔
اس طرح سے یہ واضح ہوگیا کہ وادی کے محض دو اضلاع میں نشے پر کتنا سرمایہ صرف کیا جا رہا ہے۔ بلکہ اس کے سبب یہاں نوجوانوں میں مختلف قسم کی بیماریاں بھی پھلنے کا خطرہ ہے بلکہ سماجی سطح پہ بھی اس کے نقصانات ہیں، سماج میں لڑائی جھگڑے عام ہونا، فتنے اور فساد ایک ٹرینڈ اور گلی کوچوں میں نوجوانوں کے درمیان لڑائی اور جھگڑے ایک فیشن بن گیا ہے۔ نوجوان نشہ نہ ملنے کی صورت میں اپنی زندگی کا خاتمہ کر دیتا ہے۔ صحت تو برباد ہوتی ہی ہے، مثلاً کشمیر میں نشہ میں مبتلا 50فی صد تک افراد اپنی رگوں میں ہیروین انجکشن کے ذریعے پہنچاتے ہیں اور کئی لوگ ایک ہی سوئی کا استعمال کرتے ہیں جس کی وجہ سے انہیں ہیپاٹائٹس سی اور کئی دیگر خطرناک بیماریاں لگ جاتی ہیں۔ نشے کی لت میں بچوں کے ساتھ ساتھ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں بھی ملوث ہو گئے ہیں بلکہ اچھے گھروں اور اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان بھی منشیات کا شکار ہو رہے ہیں۔ کشمیر پولیس کے مطابق زیادہ نشہ کرنے والوں کی عمر 18سے 35سال کے درمیان ہوتی ہے۔ مزید کہنا تھا کہ ڈرگ ڈی ایڈیکشن سینٹروں پہ نوجوانوں کی خاصی تعداد آ رہی ہے جو تشویشناک ہے۔ 2019ء میں 633افراد نے اپنے نام پولیس کنٹرول روم سرینگر میں درج کروائے تھے جن کی تعداد آج بڑھ کے 1978 ہوگئی جن میں 81فی صد مرد اور 19فی صد خواتین تھیں ابھی تک پولیس کنٹرول روم سرینگر کے ڈرگ ڈی ایڈیکشن سینٹر میں دس ہزار افراد کا علاج کیا گیا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ کشمیر میں نوجوانوں کو اس وبا سے پاک رکھنے کے لیے سرکاری و غیر سرکاری تنظیمیں، پولیس اور علماء اپنی کوششوں کے باوجود بھی منشیات کو کشمیر کے ختم کرنا تو دور کی بات کم کرنے میں بھی ناکام دکھائی دے رہے ہیں۔ بلکہ آئے روز کے اعداد و شمار کے مطابق اس میں اضافہ ہی دیکھنے کو مل رہا ہے۔ عوام انتظامیہ سے یہ سوال کرتے ہیں کہ یہ افیم اور ہیروئن اور دیگر نشہ آور انجکشن اور ٹیبلٹس کہاں اور کیسے کشمیر میں پہنچ رہے ہیں۔ یہ بات واضح ہے کہ یہ سارا کچھ ایک منظم طریقے سے ہی انجام دیا جا رہا ہے۔ کشمیر پولیس کے مطابق کشمیر میں لگ بھگ 1672 افرد اس کاروبار کے ساتھ وابستہ ہیں جن میں سے 35؍ افراد کو پی ایس اے کے تحت گرفتار کیا جا چُکا ہے اب یہاں یہ سوال کھڑا ہوتا ہے کہ کیا محض 35؍ لوگ ہی ان میں گناہگار ہیں؟ کیا انتظامیہ یہ کہہ کر اپنے آپ کو بری سمجھتی ہے کہ سرحد پار سے یہ ساری منشیات آ رہی ہیں اس لیے ہم اس کو روک نہیں سکتے۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ جب تک نہ اس دھندے سے وابستہ بڑے بڑے مگرمچھوں کو پکڑا نہیں جاتا تب تک اس وبا پہ قابو پانا ممکن نہیں ہے۔ یہاں سوال یہ بھی بنتا ہے کہ جموں کشمیر میں ڈرگ پالیسی کے اطلاق اور اینٹی نارکوٹکس فورس کی کارروائیوں کے باوجود ڈرگ اسمگلروں پر قابو کیوں نہیں پایا جا سکتا؟ کئی لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ دھندہ ایک منظم پروگرام اور سیاسی لوگوں کے آشرواد سے چل رہا ہے عام لوگوں کے بس کی بات یہ نہیں ہے۔ اگر سرحدوں پہ اتنی فوج اور تاربندی کی گئی ہے تو وہاں سے اتنی بڑی مقدار میں ڈرگس کیسے کشمیر لائے جا رہے ہیں اسی طرح سے وادی میں اگر فورسز کی نظر ہر ایک شحص پہ ہے تو یہ ہزاروں میں جو درندے کشمیر کے نوجوانوں کی زندگیاں اُجاڑنے میں مصروف ہیں یہ کسی کو نظر کیوں نہیں آ رہے ہیں؟
اس ساری مایوس کُن صورتحال کے بیچ ہمیں چاہیے ہم اجتماعی طور سماجی سطح پہ اس ناسور کو کشمیر سے اُکھاڑ پھنکیں۔ اپنے بچوں کو پہلے سے اچھے اور بُرے کی تمیز کرنا سیکھائیں اُن پر نظر رکھیں اُنہیں دینی تعلیم سے آراستہ کریں۔ ہمارے علماء کا یہاں ایک خاص کردار بنتا ہے اپنی اپنی مساجد اور درس گاہوں میں بچوں کو اس ناسور سے دور رہنے کی تلقین کریں۔ انتظامیہ کو بھی چاہیے اس منظم دھندے میں ملوث افراد کے خلاف کڑی سے کڑی کارروائی عمل میں لا کے دیگر لوگوں کے لیے نشان عبرت بنا دیا جائے تاکہ نوجوان نسل اس بربادی سے بچ جائے۔