اُف یہ میسج

84

اول تو اتنا وقت کہاں کہ تمام متعلقہ گروپس میں فارورڈ کردہ msg اور تصاویر اور لمبے لمبے تبصرے دیکھیں، بلڈ پریشر کم زیادہ ہوتا رہے۔ پھر بلا وجہ اپنے خیالات کا اظہار کسی کے خلاف اور کسی کے حق میں۔ شاید جمہوریت اسی کا نام ہے۔ مگر شائستگی اور سلیقہ اور آداب گفتگو بھی تو کوئی چیز ہے۔
دیکھا یہ جا رہا ہے کہ آج کل بہت ہی زیادہ بے باکی سے میاں نواز شریف و فیملی ، عمران خان اور عساکر وطن پر بغیر سوچے سمجھے رقیق حملے اور تنقید کا سلسلہ جاری ہے۔ اسی طرح انصاف کے ادارے اور ان کے فیصلے بھی تنقید کی زد مین ہیں۔
اس سے پہلے آصف زرداری اور مولانا فضل الرحمان تنقید کے نشانے پر تھے۔
دیکھنے میں آیا ہے کہ جان بوجھ کر یا انجانے میں کوشش یہ ہوتی ہے کہ کوئی حکومت 5 سالہ مدت پوری نہ کرنے پائے۔ اگر ایسا ہے تو یہ آئینی مدت کم کرکے 3 سال یا 4 سال کر دی جائے۔
گزشتہ کم و بیش 25 سال سے احتساب کا سن رہے ہیں۔ کیسز درج ہیں، کیسز چل رہے ہیں، فیصلے نہیں ہو پا رہے ۔
لیکے رشوت پھنس گیا ہے
دیکے رشوت چھوٹ جا
پلی بار گین کرکے سب با عزت اور عیش و عشرت کی زندگی ، خوف آخرت سے بے پرواہ ہو کر، گزار رہے ہیں۔
اس وقت ملک کا آوا کا آوا ہی خراب ہوگیا ہے۔ کسی کا یہ جملہ مشہور ھے
“اونٹ رے اونٹ تیری کوئی کل سیدھی۔۔۔” ؟
اس وقت ملک کو یکجہتی، اتحاد و اتفاق، دیانتداری ، اور ہر وقت چوکنا رہنے کی ضرورت ہے۔
کیسز کے فیصلے بلا تفریق جلدی جلدی کرو، انصاف سے کام لو، جانبداری طرفداری اور حق تلفی چھوڑ دو ۔ ظلم و زیادتی سے باز آجائو، لاپتہ لوگوں کو ان کے پیاروں سے ملائو، روزگار فراہم کرو۔