کشمیری صحافتی اداروں کے خلاف احتجاج!

1201

سرینگر کشمیر
انسان سے غلطیاں ہونا عین فطرت میں شامل ہے، اس لحاظ سے ہر ایک جگہ مثبت اور منفی دونوں حیثیت سے کام ہوتا ہے اور آئندہ بھی ہوتا رہے گا۔ انفرادی و اجتماعی طور پر دن و رات میں لاتعداد غلطیاں ہو جاتی ہیں دنیا میں چل رہے مختلف شعبہ ہائے حیات میں ایک طرف نئے نئے طریقوں سے کام ہو رہا ہے اور دوسری جانب کام کے دوران مثبت و منفی دونوں حیثیتوں سے اس سے نتائج بھی برآمد ہو رہے ہیں، ان شعبوں میں ایک شعبہ میڈیا بھی ہے، اس سے بھی جانے انجانے میں غلطیوں کا صدور ہو جاتا ہے، اسی طرح سے سماجی رابطہ کی ویب گاہیں بھی صحیح اور غلط کاموں میں محو سفر ہیں، تاہم اس کے ساتھ ساتھ قارئین اور ناظرین بیدار مغز اور ہوشیار ہوں، اخلاق اور قانون کا پاس و لحاظ کرنے والے ہوں تو سماجی روایات اور اخلاق کی پاسداری کرنا آسان اور ممکن ہو جاتا ہے۔ جس کی ایک مثال گزشتہ دنوں ہمیں دیکھنے کو ملی، جب کشمیر کے ایک مؤقر انگریزی روزنامہ ’’گریٹر کشمیر‘‘ میں ایک بے ہودہ اور شرمناک اشتہار شائع کیا گیا۔ اشتہار انگریزی زبان میں تھا جس کا ترجمہ اس طرح ہے: ’’دہلی میں ’’سپا‘‘ نوکری کے لیے نوجوان لڑکیوں، گھریلو خواتین اور بیوائووں کی ضرورت ہے، رہائش اور کھانے پینے کا انتظام ہمارا ہوگا‘‘۔
اشتہار کے نیچے ایک فون نمبر اور میل ایڈریس دیا ہوا تھا۔ مذکورہ اشتہار کو دیکھنے کے بعد کشمیری عوام پر جیسے مصیبت کا ایک پہاڑ آ گرا کہ کس طرح سے اب ہماری خواتین سے یہ اخلاق باختہ اور فحش کام کروانے کی شروعات کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہے، یہ وادی کشمیر تو بزرگوں اور علماء کی سرزمین ہے یہاں تو اکثریت کلمہ گو مسلمانوں کی ہے، جن کے دین میں ان اخلاق باختہ حرکات کو حرام قرار دیا گیا ہے، تو ایسے میں یہ کون لوگ ہیں جو اس سرزمین کی عزت مآب بیٹیوں اور خواتین کو اپنے گندے، اخلاق باختہ، غیر قانونی اور انسانیت دشمن مقاصد کے لیے استعمال میں لگے ہوئے ہیں، اس اشتہار پر شک تب اور بڑھ گیا جب اس کے حاشیے پر رابطہ نمبر کسی کمپنی کا نہیں بلکہ کسی فردکا تھا اور فیس بُک پہ ایک کال ریکاڈنگ وائرل ہو گئی جہاں ایک مختصر سی گفتگو میں اس شخص نے جواباً کہا کہ یہ غلطی سے ہوگیا ہے اور اسی کے ساتھ فون رکھ دیا۔
دراصل سپا spa)) ایک ایسا کام ہوتا ہے جہاں پر لوگوں کو جن میں مرد وخواتین دونوں شامل ہوتی ہیں وہاں یہ خواتین اُن کے ننگے جسموں پر مالش اور مساج کرتی۔ ایسے ماحول میں وہاں کیا حالات بنتے ہوں گے یہ کہنے کی نہ ہی ضرورت ہے اور نہ ہی ضمیر اس کی اجازت دے گا۔ آئے روز صحافتی اداروں کے حوالے سے اور کشمیر میں گرتے صحافتی معیار کی وجہ سے میڈیا خود اکثر و بیش تر سوشل میڈیا پر موضوع بحث بن گیا ہے ایک طرف اس طرح کے اشتہارات سے جہاں اس کی ساخت کمزور ہوتی جا رہی ہے وہیں عام لوگوں کا بھروسا بھی اب صحافتی اداروں سے اُٹھنے لگا ہے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ اب صحافتی شعبہ اور صحافی ہی کشمیر میں تنقید کا نشانہ بنتے جا رہے ہیں۔ کشمیری لوگوں نے مختلف طرح سے اس اخبار کے متعلق سماجی رابطہ کی ویب گاہوں پر اپنے غم وغصے کا اظہار کیا ایک سوشل میڈیا صارف نے کہا کہ: ’’انتہائی شرم کی بات ہے کہ ’’گریٹر کشمیر‘‘ اب ایسے اشتہار شائع کر رہا ہے جس میں فحاشی پھلانا مقصد ہے اس طرح کے اخبارات کو ہمیں مسترد کر دینا چاہیے جو معاشرے میں چند ٹکوں کی خاطر فحاشی کو فروغ دیتے ہیں‘‘۔
ایک اور ٹوئٹر صارف کا کہنا تھا کہ: ’’یہ انتہائی شرمناک خبر ہے کہ گریٹر کشمیر ایک ایسے اشتہار کو شائع کر رہا ہے ہمیں ایسے اخبارات کو مسترد کر دینا چاہیے جو چند پیسوں کی خاطر بے ہودگی پھلانے کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ گریٹر کشمیر میں شائع ہونے والے اشتہار میں گھریلو اور بیوہ خواتین کو نشانہ بنایا گیا ہے، یہ کس طرح کا اشتہار گریٹر کشمیر میں شائع ہوا ہے؟‘‘۔
چنانچہ اس صوتحال کے دوران کشمیری عوام کو میں مبارک بادی کا مستحق سمجھتا ہوں جنہوں نے بغیر کوئی دیر کیے اس اشتہار کے خلاف اپنی رائے دے کر اپنی بیدار مغزی کا ثبوت فراہم کیا۔ وہیں دوسری طرف چند ایسے بھی لوگ یا سماجی ویب گاہوں کے صارف ہیں جنہوں نے شعوری یا غیر شعوری طور پر اس اشتہار کو من و عن اپنے غصے کے اظہار کے دوران وائرل کر دیا۔ جو نہیں ہونا چاہیے تھا۔ وادی کشمیر کے معروف ماہر قانون و سیاسی تجزیہ شیخ شوکت حُسین نگار کا کہنا تھا کہ: ’’جہاں ایک طرف ہم اس اشتہار کے منفی پہلو کو سامنے لائے وہیں اُن لوگوں پر بھی افسوس ہے جو اس اشتہار کی تشہیر کر رے ہیں، بلکہ میں یوں کہوں گا کہ یہ لوگ غلاظت کے ڈھیر میں پتھر مار کے چھینٹے اٹھانے کا عمل کر رہے ہیں جو بہت دور تک ہمارے سماج کو گندہ کر سکتی ہیں‘‘۔
چنانچہ اس ساری صورتحال اور شدید تنقید کو محسوس کرتے ہوئے روزنامہ ’’گریٹر کشمیر‘‘ نے عوام سے اس کے متعلق معذرت کر لی۔ اخبار نے اس کی مکمل ذمے داری لیتے ہوئے کہا کہ ہم قارئین سے معذرت خواہ ہیں، وہیں روزنامہ سے منسلک ذمے داران کا یہ بھی کہنا ہے کہ اشتہار وال نٹ اشتہاری ایجنسی کی جانب سے دیا گیا تھا۔ ذمے داران کی جانب سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ ہم نے سبھی اشتہارات پر disclamier بھی دیا ہوا ہے کہ ہم اشتہار ات میں موجود مواد اور دعوئوں کی ذمے دار نہیں ہیں جب کہ اخبار نے اس کے بعد اس اشتہاری ایجنسی کو بلیک لسٹ کر دیا ہے اور دو ملازمین کو بھی نوکری سے برطرف کر دیا ہے جو اشتہار شائع ہونے سے قبل اسے اچھی طرح دیکھنے کے ذمے دار تھے۔ مذکورہ بالا اشتہاری ایجنسی کی جانب سے بھی اشتہار کے لیے معذرت کر لی گئی ہے۔
ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ صحافت ایک معزز پیشہ ہے۔ اچھی صحافت سے ہی معاشرے ترقی پاتے ہیں۔ صحافت کے ذریعے قوموں کو راہِ حق دکھائی جا سکتی ہے۔ اس اندھیر نگری میں معیاری صحافت ہی ہماری راہنمائی حقیقی معنوں میں کر سکتی تھی، کیوں کہ صحافت ہے ہی نام حق پسندی کا، حق کے پھلائو کا، حقیقت کو سامنے لانے کا، قوموں کی ترقی کا، معاشروں سے بُرائی دور کرنے کا۔ لیکن افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ کشمیر میں چند صحافتی اداروں، صحافیوں اور حکومتی نااہلیوں کے سبب یہ شعبہ پستی کی جانب رواں دواں نظر آرہا ہے۔ کبھی یہاں صحافیوں کو بلیک میلنگ کرتے ہوئے پکڑا جاتا ہے تو کبھی حق کو چھپانے کے عوض ٹکے بٹورتے ہوئے۔
بہر حال ہم مسلم اکثریت والے علاقے میں رہتے ہیں تو یہاں کے صحافتی اداروں کو اس چیز کا خاص خیال رکھنا چاہیے۔ اگر ایسا نہیں کیا گیا تو وہ دن دور نہیں جب سودی کاروبار اور سودی اداروں میں کام کرنے کو حرام اور منع قرار دینے کے ساتھ ساتھ شعبہ صحافت میں کام کرنے والے لوگوں کے بارے میں بھی علماء کرام کی طرف سے فتویٰ آئے گا کہ اس میں کام کرنا مکمل طور سے منع ہے۔ اس سارے منظر نامے کے بیچ ہمیں کچھ اچھا بھی دیکھنے کو ملا، وہ یہ کہ جس طرح سے اس اشتہار کے سبب ہمارے کشمیر میں بے چینی اور مایوسی پھیلی، عوام نے اچھے خاصے ردعمل کا مظاہرہ کیا۔ اس کے بعد اخبار نے بھی اس کا نوٹس لیا۔ اسی طرح سے اشتہاری ایجنسی نے بھی معذرت کی۔
دوسری جانب اشتہار کا مواد ایسا تھا اگر اُس پر لب کشائی یا کوئی نرمی برتی جاتی تو آنے والے وقت میں یہ ہمارے معاشرے کے لیے انتہائی نقصان دہ ثابت ہی نہ ہوتا بلکہ میڈیا کو بھی مزید بگاڑ کے سماجی بُرائیوں اور فحاشی و بد اخلاقی کو ایک لائسنس فراہم ہو جاتا۔ تو اس ردعمل سے ایک تو بُرائی پر بروقت روک لگ گئی اور اس قسم کی دوسری بُرائیوں کا دروازہ بھی بند ہو گیا وہیں دوسری طرف قارئین اور ناظرین نے اچھے طرز عمل کا مظاہرہ کر کے سماج تک ایک اچھا پیغام پہنچایا ہے۔ یہ اسی وجہ سے ممکن ہوا جب عوام اور قارئین بیدار رہتے ہیں، بغیر کوئی پیسہ خرچ کیے یا بغیر کسی ہنگامے یا سڑکوں پر احتجاج کیے ہوئے بُرائی پر روک لگا دی۔ اس سے اخباری اداروں اور نمائندوں کو بھی ایک پیغام گیا کہ عوام کے جذبات و احساسات کا خیال رکھنے کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر سچ مچ اُن سے یہ غلطی ہوئی تھی تو میڈیا کو اب سنجیدگی اور باریکی سے کام کو دیکھنا چاہیے۔ یہ بات پھر سے ثابت ہوئی کہ صحافتی اداروں کو چاہیے وہ خبریں ہوں یا مضامین اس سب میں قارئین کی حساسیت کا عوام کے جذبات و احساسات کا خیال رکھ کے ہی کام کرنا چاہیے اور قارئین کو بھی ہر لمحہ اپنی بیداری کا مظاہرہ کرنا چاہے تب ہی ایک اچھی صحافت وجود پا سکتی ہے۔