طالبان کو تسلیم کرنا ہی افغانستان میں خوشحالی کی ضمانت ہے،انسٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز

189
اسلام آباد: انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز کے تحت گول میز کانفرنس سے مقررین خطاب کررہے ہیں

اسلام آباد (اسٹاف رپورٹر) افغانستان سے مکمل امریکی انخلا کے تناظر میں وہاں سے اعلیٰ تعلیم یافتہ افرادکی ہجرت نے معمول کی زندگی کو سنگین خطرے سے دوچارکر دیا ہے۔ ایسے حالات میں ہنر مند اور تعلیم یافتہ افغان غیر یقینی مستقبل کے خدشے کے باعث اپنے ملک کو مایوسی میں چھوڑ رہے ہیں۔ یہ صورتِ حال طالبان کی جانب سے فوری اقدامات کا تقاضا کرتی ہے تاکہ عام افغانوں کی زندگیوں میں موجود افراتفری پر قابو پا یاجا سکے۔ ان خیالات کا اظہار انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز، اسلام آباد کے زیر اہتمام منعقد ہونے والی ایک گول میز کانفرنس میں کیا گیاجس کا عنوان افغانستان سے امریکی انخلا: موجودہ اور مستقبل کے چیلنجز تھا۔ کانفرنس میں ماہرین تعلیم، طلبا، دانشوروں، صحافیوں، پاک افغان یوتھ فورم، آئی پی ایس کی ٹیم کے ارکان اور افغان مندوبین نے شرکت کی، جن میں سیاستدان، سابق افغان حکومت کے افسران اور افغان صحافی شامل تھے۔ آئی پی ایس کے سینئر ریسرچ آفیسر سید ندیم فرحت گیلانی نے سیشن کی نظامت کی جبکہ مقررین میں نیشنل پیس کونسل کے ڈپٹی چیئرمین مولوی عطا الرحمان سلیم، کابل کے سابق گورنر احمد اللہ علی زئی، سابق وزیر ٹرانسپورٹ حسنی مبارک عزیزی، صوبہ نورستان کے سابق گورنر جمال الدین بدر، آئی پی ایس کے چیئرمین خالد رحمن، آئی پی ایس کے وائس چیئرمین، ایمبیسیڈر (ر) سید ابرار حسین، اسٹریٹیجک امور کے ماہر بریگیڈیئر سید نذیر، مصنف اور افغان امور کے ماہر جمعہ خان صوفی، صحافی محمود جان بابر، نسٹ میں سینٹر آف انٹر نیشنل پیس اینڈ سٹیبلٹی کے سربراہ ڈاکٹر طغرل یامین، چیئرمین انسٹی ٹیوٹ آف ریجنل سٹڈیز پشاور ڈاکٹر محمد اقبال خلیلی، ڈائریکٹر سنٹر فار اسٹریٹجک اینڈ ریجنل اسٹڈیز کے ہارون خطیبی اور ڈی جی پی اے وائے ایف سلمان جاوید شامل تھے۔ مقررین کا موقف تھا کہ طالبان ایک حقیقت ہیں،جسے قبول کرنا ہی افغانستان کی خوشحالی کی ضمانت ہے اور یہ ہی مستقبل کے حقیقت پسندانہ لائحہ عمل کو طے کرنے میں معاون ثابت ہو سکتا ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے، تمام سیاسی اور نسلی نمائندگی کرنے والے افغان دھڑوں کو ایک جامع حکومت کی تشکیل کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ مل بیٹھنے کی ضرورت ہے۔ کانفرنس میں یہ بھی کہا گیا کہ موجودہ منظرنامے میں اقتدار کے خلا نے سیاسی عدم استحکام اور غیر یقینی کو جنم دیا ہے، جس کے نتیجے میں ان افغانوں میں خوف اور خدشات پائے جاتے ہیں جو اپنے ملک میں امن اور استحکام چاہتے ہیں تاکہ کاروباری سرگرمیاں دوبارہ شروع ہو جائیں اور ہنر مند مزدور روزگار کے مواقع تلاش کرسکیں۔ افغانستان کے موجودہ حالات کو انسانی بحران کے پہلو سے دیکھنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے شرکا نے عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ افغان مہاجرین کی مدد کے لیے آگے آئے جنہیں امداد اور بچا¶ کی اشد ضرورت ہے۔علاقائی اور عالمی طاقتوں کی افغانستان میں مداخلت پر مبصرین نے کہا کہ اگر افغانستان میں سیاسی مداخلت اور پڑوسی ممالک میں عدم استحکام پیدا کرنے کے لیے افغان سرزمین کا استعمال بند نہ کیا گیا تو افغانستان اور خطے میں طویل مدتی امن اور استحکام ایک خواب رہے گا۔