محکمہ محنت کی سرپرستی میں مزدوروں کا قتل

223

کورنگی انڈسٹریل زون میں کیمیکل فیکٹری میں آتشزدگی سے ابھی تک 19 مزدور لقمہ اجل بن گئے جن میں ایک ہی گھرانے کے 4 مزدور بھی شامل ہیں۔ اس سے پہلے بھی تسلسل کے ساتھ ایسے درد ناک حادثات انڈسٹریل زون میں کئی بار رونما ہو چکے ہیں جن میں درجن سینکڑوں مزدور اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ یہ محض حادثات نہیں یہ اقدام قتل ہے اس قتل عام کی ذمہ داری محکمہ محنت سندھ پر عائد ہوتی ہے جو ماہانہ بھتہ اپنے دفتروں میں وصول کر کے کمپنیوں اور کارخانوں کی صحت سلامتی اور دیگر لیبر قوانین کی عملداری کے حوالے سے کوئی انسپیکشن نہیں کرتا۔ تمام مزدور تنظیموں کو لیبر ڈیپارٹمنٹ کے ذمہ داروں پر اس قتل عام کی ایف آئی آر کٹوانا ہوگی بصورت دیگر قتل و غارت کا یہ سلسلہ کبھی نہیں رکنے والا۔ دوسری طرف مجال ہے انتہا کی غفلت اور لاپرواہی برتنے والوں کے خلاف قانون حرکت میں آئے۔ ممکن نہیں کسی کابینہ کے لیے یہ کہنا اتنا اہمیت کاحامل ہو کہ وہ کابینہ کا اجلاس بلا کر اس پر پریشانی یا ان حادثات کے سدباب کے لیے کوئی حکمت عملی بناتے نظر آئیں۔ ہمارے
نظام انصاف میں بھی ایسے حادثات جس میں مزدور طبقے کی جانیں جائیں۔ اس کی کوئی وقعت نہیں جو جوڈیشری کو ترس آئے اور کوئی سوموٹو لے کر ذمہ داروں اور اداروں کو کٹہرے میں کھڑا کرے۔ ان بے موت ناحق مرنے والے مزدوروں کے لیے کوئی سوشل میڈیا پر طوفان نہیں اٹھائے گا کوئی ٹرینڈ نہیں چلے گا۔ ان بے قصور مزدوروں کے لیے کوئی اپنے اخبار میں کیونکر کالے کرے گا اور نہ ہی اقرار الحسن جیسے انسان دوستی کا ڈھونگ رچانے والے اینکرز کبھی چیخیں گے۔ باقی کے دانشوروں جو رات سات بجے سے لے کر رات 11 بجے تک سوساسٹی میں عدم برداشت میڈیا کی آزادی، آزاد صحافت، انسان کے بنیادی حقوق، جمہوریت، تہذیب، انصاف اور قانون کی عملداری پر گھنٹوں کے لیکچر دیتے ہیں
ان کو بھی سانپ سونگھ جائے گا اور یہ سب اس لیے ہو گا کہ مرنے والوں کا تعلق تو محنت کش طبقے سے ہے، کیا مرنے والوں کا تعلق کسی شوبز دنیا ایکٹر گھرانے یا پھر سیاسی عدالتی جرنیلی شعبوں سے تھا۔ ہاں البتہ خدا ناخواستہ مرنے والوں کا تعلق مزدور طبقے کے بجائے کسی بڑے شعبے سے ہوتا تو پھر نام نہاد دانشور صحافی ارباب اختیار انصاف کے ٹھیکیدار سب اس غفلت لاپرواہی برتنے والوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کا عزم کیے ہوتے۔ مزدورطبقے کا بھی ایک سوال ہے ارباب اختیار و اقتدار سے منصف کا منصب سنبھالنے والوں سے قانونی پر عملدرآمد کرانے والوں سے کیا واقعی ایسے حادثات اور قتل غارت پرتم چین سے سو لیتے کیسے سکون سے کھا پی لیتے ہو روٹین کے ساتھ اپنے بچوں کے ساتھ کیسے ہنس کھیل لیتے ہو جبکہ دوسری طرف آپ کی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کی غفلت کے سبب آدھا آدھا خاندان آگ میں جل کر موت کی اغوش میں چلا جاتا ہے۔
کیا زندہ قوموں کا یہی شعار ہوتا ہے