پوچھو تو ادھر تیر فگن کون ہے یارو

782

افغانستان میں طالبان کی فتح کو ایک ہفتہ سے زیادہ ہونے کو آیا ہے لیکن ابھی تک دنیا بھر میں طالبان کی اس فتح پر حیرت کا اظہار کیا جا رہا ہے اور اس کے مضمرات جاننے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اسی کے ساتھ اس بات کا اعتراف کیا جارہا ہے کہ طالبان نے جس برق رفتاری سے افغانستان کو زیر کیا ہے اس سے انہوں نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ عزم و استقلال سے لیس ایک چھوٹی طاقت بیس سال کی جنگ کے بعد دنیا کی سپر طاقت کو شکست دے سکتی ہے۔ یہ بیس سالہ جنگ سپر طاقت کہلانے والے امریکا کے لیے تاریخ کی طویل ترین جنگ ثابت ہوئی جس میں ایک لاکھ سے زیادہ افغان شہری اور بیس ہزار سے زیادہ امریکی فوجی ہلاک ہوئے۔ پھر سوال یہ ہے کہ آیا امریکا کو وہ مقصد حاصل ہوا جس کے لیے یہ خونریز جنگ شروع کی گئی تھی۔
امریکا کا مقصد اس جنگ کا افغانستان میں طالبان کا تختہ الٹنا تھا جنہوں نے القاعدہ کے قائد اسامہ بن لادن کو اس ثبوت کے بغیر امریکا کے حوالے کرنے سے انکار کردیا تھا کہ وہ امریکا میں نائین الیون کے حملوں کے ذمے دار تھے۔ افغانستان پر حملہ اور تابڑ توڑ بمباری سے امریکی اسامہ بن لادن کو پکڑنے میں بری طرح ناکام رہے تھے۔ کئی برس بعد امریکی کمانڈوز ایبٹ آباد میں ایک مکان پر حملہ کر کے اسامہ بن لادن کو ہلاک کرنے میں کامیاب ہوئے تھے۔ اسی کے ساتھ امریکا نے پچھلے بیس برس کے قبضہ کے دوران افغانستان میں امریکا کی حامی اور اس پر بھروسے والی فوج کی تربیت اور اسے منظم کرنے پر نوے لاکھ ارب ڈالر خرچ کیے۔ امریکا کے عسکری تجزیہ کاروں کی پیش گوئی تھی کہ افغانستان سے امریکا کی واپسی کے بعد چھ ماہ تک یہ فوج ملک سنبھالے رکھے گی۔ لیکن یہ پیش گوئی باطل ثابت ہوئی اور اسی کے ساتھ یہ حقیقت بھی آشکار ہوئی کہ نوآبادیاتی نظام جب ٹھپ پڑتا ہے تو یہی انتشار اور خلفشار سامنے آتا ہے جو پچھلے دنوں افغانستان میں طالبان کی فتح کی صورت میں ظاہر ہوا۔ یہ حقیقت بھی دنیا کے لیے حیرت انگیز ہے کہ اس بار افغانستان کو زیر کرنے والے طالبان کا انداز بالکل مختلف ہے اور ان میں وہ اکھڑ پن اور انتہا پسندی نہیں ہے جو بیس سال پہلے حکمران طالبان میں نمایاں تھا۔ یہ بات بھی بے حد اہم ہے کہ اس بار طالبان اپنی فوجی طاقت کے بل پر حکمرانی کے بجائے گفت و شنید کے ذریعہ مسائل حل کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔
افغانستان میں طالبان کے ہاتھوں امریکا کی شکست نے یہ تاریخی حقیقت دہرائی ہے کہ بلا شبہ افغانستان سلطنتوں کا قبرستان ہے۔ چنگیز خان اور منگولوں کو افغانستان کی سر زمین پر شکست کا سامنا کرنا پڑا اور انیسویں صدی میں برطانوی سلطنت کو جس کی سر زمین پر سورج غروب نہیں ہوتا تھا افغانستان میں خفت آمیز شکست ہوئی۔ سویت یونین کو افغانستان پر گیارہ سال تک تسلط کے بعد 1989 میں افغانستان سے پسپا ہونا پڑا۔
امیر عبد الرحمان نے افغانستان پر 1880 سے 1901 تک حکومت کی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ افغانستان پر قبضہ کرنا آسان ہے لیکن اس پر تسلط برقرار رکھنا بے حد مشکل ہے۔ افغانستان کی حالیہ تاریخ نے یہ بات صحیح ثابت کر دی ہے۔ بہر حال دیکھنا یہ ہے آیا طالبان افغانستان پر اپنا تسلط برقرار رکھ سکیں گے کہ نہیں؟