رسائل و مسائل

تدفین کے بعد قبر پر تلاوتِ قرآن
سوال: ہمارے یہاں میت کی تدفین کے بعد قبر کے پاس سورۂ فاتحہ اور سورۂ بقرہ کے پہلے اور آخری رکوع کی تلاوت کی جاتی ہے۔ براہِ کرم اس کی شرعی حیثیت واضح فرما دیں۔ کیا یہ سنت سے ثابت ہے؟
جواب: قبر کے پاس تلاوتِ قرآن کریم کے مسئلے میں فقہا کے درمیان اختلاف ہے۔ مالکیہ نے اسے مکروہ قرار دیا ہے اور اس کی دلیل یہ دی ہے کہ سلف سے ایسا کرنا ثابت نہیں ہے۔ البتہ متاخرین مالکیہ نے اس کی اجازت دی ہے۔
احناف، شوافع اور حنابلہ کہتے ہیں کہ قبر کے پاس قرأتِ قرآن مکروہ نہیں ہے۔ ابن عمرؓ سے مروی ہے کہ انھوں نے اپنے انتقال کے وقت وصیت کی تھی کہ ان کی تدفین کے بعد قبر کے پاس سورۂ بقرہ کی ابتدائی اور آخری آیات کی تلاوت کی جائے۔
مشہور حنفی فقیہ ابن عابدینؒ نے شرح اللباب کے حوالے سے لکھا ہے:
’’آدمی کو قبر کے پاس سورۂ فاتحہ، سورۂ بقرہ کی ابتدائی آیات ’’المفلحون‘‘ تک، آیت الکرسی، سورۂ بقرہ کی آخری آیات ’’آمن الرسول تا ختم سورہ‘‘ سورۂ یٰس، سورہ ملک، سورۂ تکاثر اور سورۂ اخلاص، تین، سات، گیارہ یا بارہ مرتبہ میں سے جو بھی توفیق ہو پڑھے‘‘۔
ایک قول یہ ہے کہ ’’قبر کے سرہانے کھڑے ہوکر سورۂ بقرہ کی ابتدائی آیات اور پیروں کی طرف کھڑے ہوکر اس کی آخری آیات پڑھی جائیں‘‘۔ (الموسوعۃ الفقہیۃ، کویت)
٭…٭…٭
ولیمہ کیسا ہو؟
سوال: شریعت میں نکاح کے موقع پر ولیمہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ حدیث میں ہے کہ اس موقع پر بکرا ذبح کرے اورگوشت کھلائے۔ اگر کسی شخص کا حلقۂ احباب بہت وسیع ہو اور وہ اتنی وسعت نہ رکھتا ہو کہ بڑے پیمانے پر دعوت کا اہتمام کرسکے تو کیا محض ٹی پارٹی کردینے سے اللہ کے رسولؐ کے حکمِِ ولیمہ کا منشا پورا ہوجائے گا؟
جواب: سیدنا عبدالرحمن بن عوفؓ کا نکاح ہوا۔ اس کا علم رسول اللہؐ کو ہوا تو آپؐ نے انھیں مبارکباد دی اور فرمایا:
’’ولیمہ کرو، خواہ ایک بکری کے ذریعے‘‘۔ (مسلم)
آپؐ نے خود بھی اس پر عمل کرکے دکھایا۔ چنانچہ روایات میں ہے کہ سیدہ زینب بنت جحشؓ سے نکاح کے موقع پر آپؐ نے بکری ذبح کروائی تھی اور لوگوں نے شکم سیر ہوکر گوشت روٹی کھائی تھی۔ (بخاری، مسلم)
لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ولیمے میں گوشت کھلانا ضروری ہے۔ دعوت میں کچھ بھی کھلایا جاسکتا ہے۔ غزوۂ خیبر کے بعد آپؐ نے سیدہ صفیہؓ سے نکاح کیا تو ولیمے میں صحابہ کو ’حیس‘ کھلایا تھا۔ (بخاری، مسلم) ’حیس‘ اس کھانے کو کہتے تھے جسے کھجور، پنیر اور گھی ملا کر تیار کیا جاتا تھا۔ سیدنا انسؓ بیان کرتے ہیں کہ سیدہ صفیہؓ سے نکاح کے موقع پر آپؐ نے مجھے حکم دیا کہ صحابہ کرامؓ کو ولیمے کے لیے بلاکر لاؤ۔ اس موقع پر گوشت روٹی کا اہتمام نہیں کیا گیا تھا۔ صحابہ آئے تو دسترخوان بچھا دیا گیا اور اس پر کھجور، پنیر اور گھی رکھ دیاگیا‘‘۔ (بخاری) سیدہ صفیہ بنت شیبہؓ بیان کرتی ہیں کہ بعض ازواج مطہرات سے آپؐ کے نکاح کے موقع پر ولیمے میں صرف دو مُد (ایک پیمانہ) جَو کا استعمال کیاگیا تھا۔ (بخاری)
نکاح ایک خوشی کا موقع ہوتا ہے۔ شریعت کی تعلیم یہ ہے کہ آدمی اس موقع پر اپنی خوشی میں اپنے اعزہ اور احباب کو شریک کرے۔ اب یہ اس کے اوپر ہے کہ وہ ان کی ضیافت اور لذتِ کام ودہن کے لیے اپنی حیثیت کے مطابق جو چاہے انتظام کرے۔
٭…٭…٭
پوجا پاٹ میں استعمال ہونے والی چیزوں کی تجارت
سوال: میری ایک دکان ہے، جس میں اسٹیل، تانبہ اور سِلور کے برتن اور گھریلو استعمال کی چیزیں فروخت کی جاتی ہیں۔ کیا ہم اس میں وہ چیزیں اور برتن، جو خاص کر ہندوؤں اور مشرکوں کے یہاں پوجا پاٹ میں استعمال ہوتے ہیں، مثلاً چراغ اور مندروں اور گھروں میں استعمال ہونے والے گھنٹے وغیرہ، انھیں فروخت کرسکتے ہیں؟
جواب: وہ چیزیں جو صرف پوجا پاٹ اور مشرکانہ مراسم کی ادائی میں استعمال کی جاتی ہیں ان کی تجارت کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں ہے، اس لیے کہ یہ ایک اعتبار سے شرکت و بت پرستی میں تعاون ہے۔ البتہ وہ چیزیں، جنھیں غیر مسلم پوجاپاٹ کے کاموں میں استعمال کرتے ہیں اور ان کے دیگر عام استعمالات بھی ہیں، انھیں دکان میں رکھ کر فروخت کیا جاسکتا ہے۔